229

اُسامہ احمد وڑائچ کی یادیں۔۔۔بشیر حسین آزاد

وہاڑی سے چترال اور چترال سے حویلیاں 31سال کا سفر تھا مگر یہ سفر 30سیکنڈوں میں تمام ہوا۔پی آئی اے کے اے۔ٹی ،آر طیارہ PK661 ، 42مسافروں کے ساتھ عملے کے6ارکان کو لیکر بتولینی کے نزدیک گاگن کی پہاڑ یوں پر گرکر تباہ ہوا۔اُسامہ احمد وڑائچ اپنی اہلیہ اور6ماہ کی بچی کے ہمراہ حادثے میں شہید ہوئے۔رات تین بجے ان کی لاش ایوب ٹیچنگ ہسپتال پہنچائی گئی تو ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد اورنگ زیب حیدر کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔اُسامہ احمد وڑائچ 4سال کیلئے اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے ایبٹ آباد آیا تھا۔آج ان کا جسد خاکی ایک دیہاتی خاتون کی چادر میں لیٹا ہوا یہاں پہنچا۔شاعر نے کہا
یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہونگے
افسوس ہم نہ ہونگے افسوس ہم نہ ہونگے
ایبٹ آباد وہ شہر ہے جہاں اُسامہ بن لادن کو مارنے کا جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا۔مگر وڑائچ ہر مہمان کے ساتھ پہلی ملاقات میں بتایا کرتے تھے کہ میرانام اُسامہ بن زیدؓ کے نام سے لیا گیا ہے۔جو جلیل القدر صحابی اور سب سے کم عمر سپہ سالار تھے۔1985میں ان کی پیدائش ہوئی تو بن لادن کا نام کوئی جانتا بھی نہ تھا۔بعض ساعتوں کے بعض واقعات کا گہرا تعلق ہوتا ہے ۔اُسامہ احمد وڑائچ نے 16اکتوبر2015کو ڈپٹی کمشنر چترال کا چارج سنبھالہ اور10دن بعد 26اکتوبر2015کو زلزلہ آیا۔جس میں ہزاروں گھر تباہ ہوئے۔کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں،سڑکیں برباد ہوئیں اور مصیبت کی گھڑی آئی۔5دسمبر 2016کو ان کا اسلام آباد جانے کا پروگرام تھا۔اُس کو تبدیل کرکے دودن بعد7دسمبر کو رکھا،پھر ارادہ تبدیل کرکے پشاور کا ٹکٹ کروایا مگر پرواز سے دوگھنٹے پہلے ٹکٹ پھرتبدیل کرکے اسلام آباد کے لئے کروایا۔ایک بجے روانہ ہونے والی پشاور کی پروازبحفاظت پشاور اُترگئی ان کی پرواز 3بجکربجے 50منٹ پر اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئی اور لینڈ کرنے میں چند ہی منٹ باقی تھے کہ حادثے کا شکار ہوگئی۔ایک ضلع میں ڈپٹی کمشنر بہت بڑا افسر ہوتا ہے مگر اللہ کی مرضی کے آگے وہ بھی بے بس ہوتا ہے۔اُسامہ احمد وڑائچ اس لئے یاد رکھا جائے گا کہ وہ تمام افیسروں سے مختلف تھا۔نڈر تھا،لباس سادہ پہنتا تھا،عام لوگوں سے گھل مل جاتا تھا۔نوجوانوں میں بہت مقبول ہوا تھا،اور ہرکام کو نئے انداز میں کرنا چاہتا تھا۔زلزلہ کی تباہی گذری تو اُنہوں نے چترال بازار میں تجاوزات کے خلاف اپریشن کا آغاز کیا ،سردیوں میں اُنہوں نے دکانیں اور سیڑھیاں گرائیں۔اس کام میں وقتی طورپر بہت سے دکاندار اُن سے ناراض ہوئے اور اُن کے خلاف محاذ بھی کھولا مگر اُنہوں نے پروا نہیں کی،مختلف پولو گراونڈ ،اپر چترال روڈ پر تجاوزات کے خلاف اپریشن کا آغاز کیا لوگوں نے اُن کے کاموں کو سراہا۔پھر انہیں چترال میں پارک بنانے کا خیال آیا۔دریا کے کنارے ڈی سی پارک بنایا،پھر انہیں کوچنگ اکیڈیمی چلانے کا خیال آیا۔تو اُنہوں نے کوچنگ اکیڈیمی چلاکر دکھایا۔7دسمبر کو ڈی سی ہاؤس سے ائیرپورٹ جاتے ہوئے فیملی کے ساتھ سنٹینیل ماڈل ہائی سکول کے سامنے گاڑی رکوائی اندر جاکر طلبہ اور اساتذہ سے ملے لوگ اس کو معمول کا دورہ سمجھ رہے تھے مگر یہ الوداعی دورہ ثابت ہوا۔اُنہوں نے اپنا آخری دورہ اپر چترال کا کیا ریشن اور بونی گئے اور سیلاب سے تباہ شدہ پلوں اور سڑکوں پر کاموں کا جائزہ لیا۔اُنہوں نے14ماہ سے بھی کم عرصہ چترال میں گذارا مگر اس مختصر مدت میں کرنل مراد خان کی طرح انمٹ نقوش چھوڑ کرچلے گئے۔
آسمان تیری لحد پہ شبنم آفشانی کرے 
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں