287

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب۔۔۔۔۔ فخر الدین فخر

ہمارے ایک سابق وزیر اعلی جناب امیر حیدر خان ہوتی کا ایک بیان نظر سے گذرکردل میں اتر گئی جو انہوں نے اہل چترال کی خیر خواہی میں اپنے روایت کے مطابق گولین گول دو میگاواٹ بجلی گھر کے سلسلے میں دیا ان کا کہنا تھا کہ ایس آر ایس پی کے اس منصوبے پر سیاست کرنے کے بجائے توجہ عوام کو فوری ریلیف دینے پر دی جائے۔ حیدرہوتی صاحب آپکی با ت درست اور آپ کی سیاسی بصیرت کی عکاس ہے۔ مگر کیا کریں ہمارے نا م نہاد لیڈرا ن کا توباواآدم ہی نرالا ہے۔ان کو تو اپنی سیاسی مفادات سے غرض ہو تی ہے۔ریلیف عوام کو ملے نہ ملے وہ خودکو تو ہمیشہ ریلیف میں ہی رکھتے ہیں۔لیڈر جو ٹھریں۔ابھی دیکھئے سرکار سے مایوس چترال ٹاؤن کے عوام کی درخواست پر ایس آرایس پی کی طرف سے دو میگاواٹ بجلی گھر کی تعمیر عوام کے لئے یقیناً ایک تحفہ ہی تو تھی۔چترال ٹاؤن کے باسی یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ اس سا ل گرمیوں میں اپنی بجلی کی موجودگی میں گرمی سے وہ مقابلہ کر سکیں گے۔انکی یہ خواہش بجا ہی تھی کیونکہ دو میگاواٹ کوئی کم بجلی نہیں ہوتی۔ مگر لگتا ہے عوام کو جان بوجھ کے روشنیوں کی طر ف نہیں لا یا جاتا۔غریب عوام حیران اورپریشان ،ایک سوال ان حیران انکھوں میں کہ آخرہمارے یہ بھائی بندے ہمارے خلاف کیوں ہوگئے ہیں۔ اورہماری بجلی کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں بلکہ کھڑے ہیں حا لانکہ ہم ان کو اپنے دل میں جگہ دی ہے۔سارا کاروبارحیات چترال شہرسے ہی وابستہ ہیں ہوناتویہ چاہئے تھی کہ اپنے حصے کی بجلی بھی چترال شہرکودیدیتے۔مگرہمارے ناکام اورنام نہادسیاستدانوں کو یہ کب گواراہو سکتاتھا ان کواپنی سیاست اور کھوئی ہو ئی ساکھ کی بحالی کاموقع جوہاتھ آیا تھا سوانہوں اپنے ضمیر کے فیصلے پرلبیک کہتے ہوئے ایس آر ایس پی اور ایس آر ایس پی کی اس کامیاب منصوبے کے ہاتھ دھو کے پیچھے پڑ گئے اوراس مقصد کیلئے بزبان شاعر’’تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے‘‘ والی بات ہو گئی۔ اور یوں اس کار خیرمیں کبھی خود یا پھر انکے حواریوں کی ہرذہ سرا ئیان بھی دیکھنے کوملیں تاہم یہ الگ بات کہ انکی خامہ فرسائیوں سے ایس آرایس پی کی صحت پرکوئی اثر ہونے سے رہا البتہ انکی اس کوشش سے غریب عوام کا نقصا ن ہونے کااندشہ ہے۔ان کی طرف سے عوام کو اکسانے کی کوشش میں انکو کچھ کامیابی ہوئی ہیں۔مگریہ وقتی ہیں اور عوام بھی ان کی طرف سے لگائے گئے الزامات اور تماشوں کو دیکھا ،سْنااورپرکھا بھی ،اور’’ ہم ہنس دئے ،ہم چْپ رہے‘‘ وا لا معاملہ اپنایا۔ویسے کریں بھی تو کیا کریں۔70کے عشرے میں بننے والی بجلی گھر اپنی تعمیرکیوقت سے لیکرآج تک صرف اورصرف اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔ ہمارے ناکام اور نام نہاد لیڈر جوصرف چوری چْپھے بورڈ بدلنے کے ہی ماہرہیں ان کو کو ئی خیال نہیں آیا کہ اس چھو ٹے سے بجلی گھرکو اپ گریڈ کر تے۔ خود سے تو ایک واٹ بھی پیدا نہیں کر سکیں الٹا غیرسرکاری اداروں ایس آرایس پی یا اے کے آر ایس پی کولعن طعن کرتے ہیں۔احسان فراموشی کی بھی کوئی حدہوتی ہیں۔ان ہی اداروں نے یہاں بجلی کے منصو بے شروع کئے اور یہ کامیابی سے چل بھی رہے ہیں۔خدارا اب بس بھی کرو ۔بجلی چترا ل کے عوام کی ہے ایس آر ایس پی نے بنائی ہے۔آپ کے پیٹ مروڑ کیوں ، تو خدارا گرمی کے ستائے ہوئے عوام پر کچھ ترس کھاؤ۔ٹھیک ہے ایس آرایس پی سے کچھ گلے شکوے ہونگے۔ ان کو کسی اور وقت کے لئے اْٹھائے رکھواور اپنے حواریں سے کہدیں کہ شاہ کی وفاداری میں اداروں کے خلاف اپنی ہرذہ سرائیوں کو مؤخرکرکے فی الحا ل اپنی توجہ عوامی ریلیف پر دیں۔ عوام کو صر ف بجلی چاہئے جو کہ ایس ار ایس پی نے دی ہے۔آپ بھی اپنے وسیع تر مفادات کو پس پشت ڈال کر عوام کے بھلائی کے اس کام کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔کو ئی کمی ہے تواس کو ٹھیک کرائے۔یہی ایک اچھے لیڈر کی خوبی ہے۔ نہیں تو اتنا سوچیں جیسے بھی ہو ں کہ الیکشن جیتنا آپ کے اپنے مفاد میں ہے جس کیلئے تم کو عوام کے پاس بھی جانا ہے تو کچھ تو کر کے جائیے اور کچھ نہیں تو صرف عوامی مفاد کے اس منصو بے کو سیاست سے دور رکھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں