310

صدا بصحر ا ۔۔۔انتخابی مہم۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

وطن عزیز پاکستان کے نقشے میں ضلع چترال کو سرکا درجہ حاصل ہے۔انتہائی شمال میں ہندوکش کے پہاڑی سلسلے کی تنگ گھاٹیوں میں افغانستان کی لمبی سرحد کے ساتھ ملحق ضلع چترال کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 1-اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 1-کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے قبل این اے 1-اور پی کے 1-پشاور شہر سے شروع ہوتے تھے ۔ پشاور کے عوامی نمائندوں نے اس پر اعتراض بھی کیا لیکن الیکشن کمیشن نے چترال سے صوبائی اسمبلی کا ایک حلقہ پی کے- 90چھین کر اس قربانی کے بدلے چترال کو اول نمبر دے دیا تھا ۔ امن، آشتی ، تہذیب و تمدن اور سیاحتی دلچسپی کے حوالے سے چترال اول نمبر کا مستحق بھی تھا ۔ ’’ دیر آید درست آید‘‘ اگرچہ ریٹرننگ افیسروں نے اُمیدواروں کی حتمی فہرست انتخابی نشانات کے ساتھ جاری نہیں کی۔ تاہم انتخابی مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ملک کی معروف سیاسی جماعتوں کے علاوہ دو نئی جماعتوں نے چترال سے اُمیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے ہیں۔ راہ حق پارٹی نے اہل سنت و الجماعت کے حوالے سے اپنی شناخت کروائی ہے ۔ یہ متحدہ مجلس عمل کا ناراض گروپ ہے ۔ اس طر ح پاک سرزمین پارٹی مہاجر قومی مومنٹ (ایم کیو ایم )کراچی کا ناراض دھڑا ہے۔ آ ل پاکستان مسلم لیگ نے پہلے چترال میں جنرل مشرف کے لئے کاغذات نامزدگی حاصل کر کے انتخابی مہم میں ہیجان پیدا کیا تھا لیکن جنرل صاحب کی وطن واپسی ممکن نہ ہوسکی پھر انہوں نے تکنیکی وجوہات کی بناء پر پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہوکر اپنی پارٹی کو بحران سے دو چار کر دیا ۔ اس پارٹی نے 2013ء کے انتخابات میں دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اب وہ صورت حال نہیں رہی۔ معروف سیاسی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی ، متحدہ مجلس عمل، پاکستان تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے ہیں۔ ان میں سلیم خان اور حاجی غلام محمد دو دو بار صوبائی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں ۔ مولانا عبد الاکبر چترالی اور شہزادہ افتخار الدین نے ایک ایک بار کامیابی حاصل کی تھی۔ عبداللطیف ، مولانا ہدایت الرحمن اور عبد الولی خان ایڈوکیٹ کو پہلے بھی انتخابی مہم
چلانے کا تجربہ حاصل ہے۔ حاجی عید الحسین ، ڈاکٹر سردار احمد ، اسرار الدین صبور، سلطان وزیر خان، ڈاکٹر امجد ، مولانا سعیدالرحمن اور دیگر اس میدان میں ’’ تازہ وار دانِ بساط ہوائے دل ‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جن کو مرزا غالب نے اچھا مشور ہ دیا ہے ؂
اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
زنہار اگر تمہیں ہوسِ ناوونوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
سنو میری جو گوشِ حقیقت نیوش ہے
انتخابی مہم کے آغاز میں ہواؤں کا رخ چار میلانات یعنی (Trends) کا پتہ دیتاہے۔ پہلا میلان یہ ہے کہ بھٹو کی مقبولیت کا زور کم نہیں ہوا ۔ بھٹو زندہ ہویا نہ ہو، ووٹروں پر اُس کا اثر موجود ہے۔ اُس کے نام کا سحر نہیں ٹوٹا اُس کے نام کا جادو کم نہیں ہوا۔ دوسرا میلان یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کا امکان ظاہر کیاجارہا ہے۔ ’’ رجال الغیب‘‘ کی تائید کا شوشہ بھی چھوڑا گیا ہے اوراس میلان نے پارٹی کے ورکروں اور سپورٹروں کو نیا جوش اور ولولہ دیا ہے۔ تیسرا میلان یہ ہے کہ چترال کی دو مذہبی جماعتیں متحدہ مجلس عمل کے نام سے متحد ہوچکی ہیں۔ 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں اس اتحاد کو نمایاں کامیابی ملی اور ضلعی حکومت انہوں نے بنائی ۔ 2002ء میں اس اتحاد نے چترال کی تینوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی مگر موجودہ انتخابی مہم کے آغاز میں پہلی والی طاقت نظر نہیں آئی۔ دونوں جماعتوں میں دھڑے بندی ہے۔ چار گروپ بن چکے ہیں اور ہر گروپ زبانِ حال سے کہہ رہا ہے’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب بہ مانگ ‘‘ یاس یگانہ چنگیزی نے فیض سے بھی دو قدم آگے نکل کر بڑے پتے کی بات کہی ؂
رہا کیا دلوں میں جب فرق آیا
اُسی دن جدائی ہوچکی بس
ایک اہم میلان یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چترال میں لواری ٹنل پر 5سالوں میں 26ارب روپے لگایا، گولین گول کے بجلی گھر کیلئے 29ارب روپے کا فنڈجاری کرکے 5سالوں میں اُس کو مکمل کیا ۔ زلزلہ زدگان کی امداد کیلئے پونے تین ارب روپے تقسیم کئے۔ چار بڑی شاہراہوں کے منصوبے ایکنک ( ECNEC) اور سنٹرل ڈیو لپمنٹ ورکنگ پارٹی( CDWP)سے منظور ہوچکے ہیں۔ مائع گیس کے تین پلانٹوں کی منظوری ہوچکی ہے۔ تاہم عوامی سطح پر سابق وزیر اعظم کی تقریروں میں چترال کے لوگوں کے خلاف ’’ سلی ریمارکس‘‘ (silly remarks) کے بار بار حوالے دیئے جاتے ہیں۔ ’’ چترالیو ! تمہیں اردو آتی ہے ؟ ’’ چترالیو! بتاؤ ایک ارب میں کتنے کروڑ ہوتے ہیں ‘‘۔ ایسی باتیں انتخابی مہم پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ ان اہم میلانات کیساتھ ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے ترقیاتی کاموں اور سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کی طر ف سے بار بار چترال کا دورہ کرکے عوامی مسائل سے آگاہی کو لوگ یاد رکھتے ہیں۔ اے این پی کے لئے نرم گوشہ موجود ہے۔ اگر چترال کے سیاسی اور سماجی پس منظر کو دیکھا جائے تو چھوٹے چھوٹے قبائلی گروہ اپنے امیدوار وں کو پارٹی وابستگی سے با لاتر ہوکر ووٹ دیتے آئے ہیں۔ 2018ء میں یہ امکان اپنی جگہ موجود ہے ۔ ماضی میں ایسا بھی ہوا کہ اُمیدواروں کی قابلیت اور صلاحیت کو دیکھ کر لوگوں نے پارٹی وابستگی کو نظر انداز کردیا ۔ قومی اسمبلی کو بڑا ووٹ صوبائی اسمبلی کو چھوٹا ووٹ کہا جاتا ہے۔ لوگ برملا کہتے ہیں۔ بڑا ووٹ تمہارا چھوٹا ووٹ جس کو دل چاہے گا دیدوں گا۔ یا چھوٹا ووٹ تمہارا ہوا، بڑے ووٹ کو وقت آنے پر دیکھوں گا۔ ایسے مواقع پر نظریات دم توڑ دیتے ہیں۔ کراچی سے ایک سیٹھ کے بارے میں پروپیگنڈا چل رہا ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر ’’ اپنا بندہ‘‘ کامیاب کر وانے کے لئے چار کروڑ روپے خرچ کر نے پر آمادہ ہے مگر نا تجربہ کاری اور ناواقفیت کی وجہ سے اب تک خسارے میں ہے ۔ ریس کے آغا زمیں پی پی پی اور پی ٹی آئی کے گھوڑے آگے ہیں۔ ایم ایم اے اور پی ایم ایل این کے ’’ جو کی ‘‘ آگے نکلنے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ مگر یہ آغاز ہے۔ انجام مختلف ہوسکتاہے ؂
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں