219

اسلام میں والدین کا مقام……تحریر:رانا اعجاز حسین چوہان

انسان کے لیے سب زیادہ مخلص اس کے والدین ہوتے ہیں جو کہ خود سارے دکھ اور پریشانیاں جھیلتے ہوئے نہ صرف اولاد کی پرورش کرتے ہیں بلکہ اسے ترقی کی اعلیٰ منازل پر دیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے والدین کی عظمت پر خصوصی زور دیا جاتا ہے لیکن دنیا بھر کی اقوام و مذاہب میں والدین کے سب سے زیادہ حقوق اور والدین کی سب سے زیادہ عظمت اسلام نے بیان کی ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے؟ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔ یعنی یہ کہ اگر تم ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت کرو گے اور ان کو راضی رکھو گے تو جنت پالوگے اور اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی اور ایذا ء رسانی کرکے انہیں ناراض کرو گے اور ان کا دل دکھاؤ گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہو گا۔حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔اس حدیث مبارکہ کا مطلب اور مدعا یہ ہے کہ جو اپنے مالک و خالق کو راضی رکھنا چاہے وہ اپنے والد کو راضی اور خوش رکھے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہونے کیلئے والد کی رضا جوئی شرط ہے اور والد کی ناراضگی کا لازمی نتیجہ اللہ کی ناراضگی ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ والد اگر شریعت کے خلاف حکم دے تو اولاد کے لئے اس حکم کا ماننا ضروری نہیں تاہم اس وقت بھی یہ ضروری ہے کہ والدکا احترام اور ان کی خدمت کرتے رہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دریافت کیا کہ مجھ پر خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری ماں، پھر میں کہتا ہوں تمہاری ماں، پھر میں کہتا ہوں تمہاری ماں، اس کے بعد تمہارے باپ کا حق ہے، اس کے بعد جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں پھر جو ان کے بعد قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی حدیث مبارکہ جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد میں بھی مذکور ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خدمت اور حسن سلوک کے بارے میں ماں کا حق باپ سے زیادہ اور مقدم ہے، کیونکہ کئی جگہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کے ساتھ خاص طور سے ماں کی ان تکلیفوں اور مصیبتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو حمل اور ولادت میں اور پھر دودھ پلانے اور پالنے میں خصوصیت کے ساتھ ماں کو اٹھانی پڑتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاوہ آدمی ذلیل ہو، وہ خوار ہو، وہ رسوا ہو۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون؟ یعنی کس کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے؟ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا وہ بدنصیب جو ماں باپ یا دونوں میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر ان کی خدمت او ر ان کا دل خوش کرکے جنت حاصل نہ کر سکے۔
بلاشبہ ماں، باپ قدرت کی عظیم نعمت ہیں وہ بچے کو پیدائش سے لے کر اس کی تعلیم وتربیت اور معاشرے میں زندہ رہنے کے قابل بنانے تک اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس کی ہر ہر قدم پر رہنمائی کرتے ہیں، اسے زمانے کے ہر سردوگرم سے بچاتے ہیں، گویا اس کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کردیتے ہیں، لیکن افسوس کہ جب وہی اولاد بڑی ہوجاتی ہے تو والدین کو اکیلا چھوڑ دیتی ہے۔ حالانکہ اس وقت ان کو اس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ماں باپ کی خدمت اورانہیں سکون پہنچانا جنت حاصل کرنے کا خاص وسیلہ ہے اور اس کے برعکس ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی آدمی کو دوزخی بنا دیتی ہے۔ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب ماں باپ بڑھاپے کو پہنچیں تو اس وقت وہ خدمت اور سکون کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں اور اس حالت میں ان کی خدمت اللہ کے نزدیک نہایت محبوب اور مقبول عمل اور جنت تک پہنچنے کا سیدھا زینہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ جس بندے کو اس کا موقع میسر فرمائے اور وہ ماں باپ کا یا دونوں میں سے کسی ایک کا بڑھاپا پائے اور پھر ان کی خدمت کرکے جنت تک نہ پہنچ سکے بلاشبہ وہ بڑا بدنصیب اور محروم ہے اور ایسوں کے حق میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمانا ہے کہ وہ نامراد ہوں، ذلیل و خوار ہوں، رسوا ہوں۔
مشہور واقعہ ہے ایک شخص اپنے والدین کو بہت ستاتا تھا یہاں تک کہ والدہ فوت ہو گئی اور والد بوڑھا ہو گیا اور کسی خطرناک بیماری کا شکار ہو گیا۔یہ شخص اس وقت والد کو ستانے سے باز نہ آیا اور اس سے جان چھڑانے کی سوچ لی اور بیمار والد کو اٹھا کر کسی ویران کنوئیں میں پھینکنے کیلئے چل پڑا راستے میں والد نے کہا بیٹا کچھ دیر ٹھہر جاؤ خود بھی آرام کر لو اور میری ایک بات بھی سن لو چنانچہ اس نے بیمار والد کو زمین پر بٹھایا تو والد نے کہا کہ بیٹا میں بھی اپنے والد یعنی تمہارے دادا کو اسی کنوئیں میں پھینک آیا تھا۔ یہ سن کر نوجوان کو حیرت ہوئی اور غور وفکر کیا تو کانپ اٹھا اور اپنا انجام بھی نظر آ گیا۔ نوجوان نے وہیں توبہ کی اور والد کو لے کر واپس گھر آگیا اور اس کی زندگی تک اس کی خدمت میں لگا رہا۔اولیا ئے کاملین کے نزدیک اپنے ماں باپ کا چہرہ محبت سے دیکھنا اولاد کے لئے عبادت ہے چنانچہ جو اولاد اپنے ماں باپ کا چہرہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کیلئے دیکھتے ہیں تو انہیں ایک حج مبرور یعنی مقبول اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے اوراللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے۔موجودہ دور میں بہت سی جگہوں پر اولاد والدین کے معاملہ میں بڑا سخت رویہ رکھتی ہے، ماں باپ اگر نصیحت کریں تو قطعاً نہیں مانا جاتا۔ ایسے نافرمان افراد کو اپنی پیدائش کے مراحل کو یاد کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ والدین نے کس طرح اسے چلنا سکھایا، بولنا سکھایا، اس کی پرورش کی اور والدین کی عظیم خدمات کی بدولت آج اسے یہ مقام و مرتبہ ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی خدمت ان کی دلجوئی اور حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں