263

دادبیداد….میٹھا زہر….ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

بچوں کو میٹھا زہر دیا جارہا ہے اور ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہے دومعصوم بھائی اپنی بہن کے ساتھ کھیل کود میں مصروف ہیں تینوں کے پاس کپڑوں کے پلاسٹک ہینگر ہیں 8سالہ ارسلان 3سالہ جدران کانشانہ لیکر فائر کرتا ہے۔جدران گرجاتاہے 5سالہ ہاشمہ دوڑتی ہوئی آتی ہے۔اپنے بھائی کو اُٹھاتی ہے اور پوچھتی ہے تمہیں کیا ہوگیا؟کیوں گرگئے۔جدران معصومیت سے کہتا ہے مجھے ارسلان نے گولی ماری تھی میں بھی اس کو گولی مارونگا،بہن کہتی ہے تم فکر مت کرو اس کو تمہاری جگہ میں گولی مارونگی۔مجھے یہ منظر ڈراونا لگتا ہے۔میں اُن کے بڑوں سے پوچھتا ہوں کہ بچوں کو ایسا ڈراونا کھیل کس نے سکھایا ہے؟اُن کا باپ کہتا ہے یہ سبق کارٹون اور وڈیوگیمز میں کوڑیوں کے مول آتا ہے۔بڑا بچہ ہالی وڈ کی ایڈونچر فلموں کو بھی ڈاون کرکے دیکھتا ہے۔میں دونوں کانوں کو پکڑ کر توبہ استغفار کرتا ہوں تو مجھے یاد آجاتا ہے1991ء میں عراق کے خلاف جنگی کاروائی کو امریکہ نے ڈیزرٹ سٹارم یعنی صحرائی طوفان کانام دیا اور اس کو تمام جنگوں کی ماں قراردیا تھا۔اس سال لیبیا کے رہنما معمر قذافی نے بندوق اور تلوار کی شکل کے کھلونوں پر پابندی لگائی نیز فوجی وردی،فوجی ٹینک اور فوجی جہاز کی شکل کے کھلونوں کو بھی خلاف قانون قرار دیا1994ء میں عرب دنیا کے5دیگر ملکوں میں ایسے کھلونوں پر پابندی لگائی گئی۔2011ء میں پاکستان کے اندر بھی بچوں کے لئے فوجی وردی اور ہتھیار نما کھلونوں کی فروخت پر پابندی لگائی گئی مگر جیسا کہ ہمارا دستور ہے اس پابندی پر عمل درآمدنہیں ہوا۔اس قسم کی پابندیوں کا مقصد یہ تھاکہ معصوم بچوں اور بچیوں کے ذہنوں میں لڑائی مارکٹائی کے زہریلے جراثیم داخل نہ کئے جائیں۔بچے ایسے کھیل کھلیں جو ذہنی نشونما،علمی آگاہی اور کائناتی بیداری میں کام آتے ہوں۔بچوں کو کھیل کے اندر اعداد وشمار جمع تفریق،ضرب،تقسیم،کیمسٹری،زوالوجی اور باٹنی کے بنیادی تصورات سکھائے جائیں،قرآنی تعلیمات سکھائے جائیں ادبی معلومات سکھائے جائیں،تاریخی اور ثقافتی آگاہی دی جائے لیکن اس طرح جامع کام نہ ہوسکا۔بازار میں بھی اسلحہ نماکھلونوں کی بھرمار ہے۔کارٹون اور ویڈیو گیموں کے ذریعے بھی بچوں کے ذہنوں میں میٹھا زہر داخل کیاجارہا ہے۔یہ سلسلہ رُکنے والا نہیں بلکہ مزید آگے بڑھنے والا ہے۔امیرحمزہ شنواری کی طویل نظم لٹون (تلاش کا ایک مصرعہ ہے”فطرت سرہ مہاردے زماچرتہ اختیار دے“لگام فطرت کے ہاتھ میں ہے میرا کوئی اختیار نہیں۔اپنے بچوں کے بارے میں ہم اس مخمصے کاشکار ہوچکے ہیں۔نہ ان کے ہاتھ سے موبائل چھین سکتے ہیں نہ ان کو ٹیلی وژن دیکھنے سے باز رکھ سکتے ہیں۔نہ اُن کو صحت مند کارٹون اور مثبت نوعیت کے گیمز دیکھنے پر امادہ کرسکتے ہیں بچوں کے سامنے ماں باپ کی یہ بے بسی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔یہ اغیار کی کوئی سازش نہیں یہ وقت کا جبر ہے۔تاریخ کی ستم ظریفی ہے اور زمانے کا گہراسا امتحان ہے۔ہم سب اس میں مبتلا ہیں۔چین،کوریااور جاپان نے اس کا آسان حل دریافت کیا ہے۔انہوں نے فیس بک،ٹویٹر،یوٹیوب اور انسٹاگرام کی عالمی سہولتوں کو اپنے ملک میں جیمر لگاکر بند کیا ہوا ہے۔وہ اپنے بچوں کے ساتھ بڑوں اور بالغوں کو بھی ان عالمی سہولتوں تک رسائی نہیں دیتے۔ان کی جگہ اپنے ملک میں قومی ضرورتوں اور وقتی تقاضوں کے مطابق صحت مند کارٹون اور صحت مند گیم مہیا کرتے ہیں،کوریا،چین اور جاپان میں 8سالہ موں تے شائے،5سالہ واں کی مون اور 3سالہ شونو لولوجب کارٹون دیکھتے ہیں یا گیمز کھیلتے ہیں تو وہ ان کی ذہنی بالیدگی اور ذہنوں میں بھائی پر فائر کرنے یا بہن کو فوراً گولی مارنے کی ترغیب نہیں دیتے۔ہماری نئی نسل پاگل بننے کی راہ پر گامزن ہے ان کی نئی نسل قومی تعمیر نو کی فکر لیکر پرواں چڑھتی ہے۔انہی دنوں کا واقعہ ہے ایک بڑے بزنس مین کا6سالہ بچہ آنکھوں کی بیماری میں مبتلا تھا۔اس کی آنکھیں ہر5سیکنڈ بعد ٹیڑھی ہوجاتی تھیں پھر اپنی جگہ آجاتی تھیں پھر ٹیڑھی ہوجاتی تھیں۔بہت سارے ڈاکٹروں نے علاج کیا مگر داؤں سے افاقہ نہیں ہوا۔علاج کے لئے بیرون ملک لے جایا گیا امریکی ڈاکٹر نے اُس کے ماں باپ سے کہا بچے کو تین دونوں کے لئے میرے گھر پر چھوڑدو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ڈاکٹر نے اس کو کھلا چھوڑدیا اور اسکی نگرانی کرنے لگا ایک دن ڈاکٹر نے دیکھاکہ بچہ کارٹون دیکھ رہا ہے اوراُس میں مگن ہے۔ڈاکٹر نے کارٹون پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ کارٹون کا مرکزی کردار آنکھیں ٹیڑھی کرکے بات کرنے کا عادی تھا بچہ دوسالوں سے یہ کارٹون دیکھ رہا تھا۔اور دوسالوں سے ماں باپ اس کی آنکھوں میں دوائیاں ڈال رہے تھے۔ڈاکٹر نے بچے کے والدین کو وہ کارٹون دکھایا اور راز کی بات بتائی کہ گڑبڑ یا بیماری آنکھوں میں نہیں بچے کے دماغ کو اس کارٹون کا وائرس لگ گیا ہے۔علاج آسان تھا۔”کارٹون چھڑاؤ بچہ بچاؤ“یہ کالم حکومت اور سرکار سے زیادہ ماں باپ کے کردار سے متعلق ہے۔حکومت اور سرکار بھی اس ضمن میں قانون سازی کرسکتی ہے۔ایڈونچر گیموں اور کارٹونوں کو سائبر کرائم میں شامل کرسکتی ہے مگر میٹھے زہر سے اپنے پیارے بچوں کو بچانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ہر گھر میں ”کارٹون چھڑاؤ بچہ بچاؤ“ پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہیئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں