289

دھڑکنوں کی زبان ….نیا سال ۔۔۔

………محمد جاوید حیات ……

ایک اور سال گذر گیا ۔۔۔سورج نکلا ڈوبا ۔۔۔چاند نے اپنی چاندنی زمین کو تحفے میں بھیجا ۔۔۔ستاروں نے روشنیاں عطا کی ۔۔موسم بدلے ۔۔پھول کھلے پھر مرجھا گئے ۔۔۔دریا بپھرنے لگے پھر آب جو بن گئے ۔۔کھیت سبزے سے لہلہانے لگے ۔۔پھر بنجر بن گئےْ ۔۔۔پربتوں پر سبز چادر پھیلی پھر سوگ گئی ۔۔دوست احباب ملے بچھڑے ۔۔کتنے انسانوں نے جنم لیا کتنے دنیا سے گئے ۔۔فلمیں بنیں ۔۔ڈرامے سٹیج ہوئے ۔۔کتابیں لکھی گئیں ۔۔گیت نغمے لکھے گئے ۔۔محبت کے گن گائے گئے ۔نفرت کے تخم بوئے گئے ۔۔حاسد نے حسد کیا ۔۔پیار کرنے والے نے پیار کیا ۔۔محبت کرنے والا محبتیں بانٹتا رہا ۔۔نفرت کرنے والے نے نفرت کی ۔۔ظالم ظلم کرتا رہا ۔۔مظلوم ظلم سہتا رہا ۔۔ہنسنے والے ہنستے رہے ۔۔رونے والے آنسو بہاتے رہے ۔۔کہیں ہفت خوان سجے کہیں چولے بجھے ہی رہے ۔۔۔۔رشتے جوڑے گئے رشتے ٹوٹتے رہے ۔۔قتل بھی کئے گئے جانیں بھی بچائی گئیں ۔۔۔ڈاکے ڈالے گئے ۔۔چوریاں کی گئیں ۔۔لوگوں سے ان کی خوشیاں چھینی گئیں ۔۔لوگوں میں مسکرہٹیں بانٹیں گئیں ۔۔اچھے ہونے کے دعوے کئے گئے ،بُرا ہونے سے انکار کیا گیا ۔۔زندگی کی بوقلمونیاں اسی طرح رہیں ۔۔لوگ رزق کے پیچھے دوڑتے رہے ۔۔۔کسی کو دن ڈھلنے رات چھانے کا احساس نہیں رہا ۔۔جب ہوش میں آئے تو ایک سال گذر گیا تھا ۔۔بس دنوں کا پھیر ۔۔۔ایک دن ۔۔دو دن ۔۔پھر 365 دن ۔۔۔یہ دن گذرتے جائیں گے ۔۔سلاحوں کے پیچھے بھی ۔۔۔کال کوٹڑی میں بھی ۔۔۔خالی پیٹ بھی ۔۔سردی میں ٹھٹھرتے بھی ۔۔قرض کے بوجھ تلے دبے بھی۔۔۔خالی جولی اور دامن پھیلاتے بھی ۔۔۔دل کھو کے تڑپتے تڑپتے بھی ۔۔کسی کی ذلف گیرا گیر میں پھنس کے بھی ۔۔موج مستیاں کرکے بھی ۔۔زربفت و کمخواب میں سجے بھی ۔۔حرم سراؤں میں نازسے ٹہلتے بھی ۔۔۔دنوں کاکیا ہے ؟دن گذرتے جائیں گئے ۔۔ایک سال گذر گیا انسان اور موت کے قریب گیا ۔۔اور قریب ہوگیا ۔۔۔اقتدار والے کے اقتدرا کے دن گنے گئے ۔۔جوان کی ’’جوانی‘‘ ایک سال کم ہو گئی ۔۔حسن والے کا ’’حسن‘‘ ڈھلا ۔۔پیار کرنے والے کے’’ پیار‘‘ کی شدد میں کمی آگئی ۔۔شرابی کبابی کی صحت بگڑی اور بگڑی ۔۔۔دھن دولت والے کی دولت بڑھی اور بڑھی اس کی پریشانی میں اور اضافہ ہوا ۔۔انسان کی فطرت ہے پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھتا ۔۔’’جس کی آج اس کے گذشتہ کل سے بہتر نہ ہو وہ خسارے میں ہے‘‘ ۔۔ دنیا دو دن کا دھوکہ ہے ۔۔۔بے حیثیت ۔۔ڈرامہ ۔۔انار کلی ۔۔بس انار کلی کو دیوار میں چن دو ۔۔پردا گراؤ ۔۔۔کتنی حسرتیں ہیں کتنی آرزؤیں ہیں ۔۔۔گذشتہ سال چترال کو دل دھلادینے والے حادثے نے ہلا کے رکھ دیا ۔۔نظام خداوندی میں جھول کہیں نہیں ۔۔حکم آیا حکم کی تعمیل ہوگئی ۔۔دنیا کی واحد حقیقت موت ہے ۔۔پھر بھی انسان اپنے پیارے کو قبر کے پہلو میں رکھ کر قبر کے کنارے سے ہنس ہنس کے واپس آتا ہے ۔۔ صفحہ ہستی سے مٹنے کا احساس نہیں ہوتا ۔۔۔۔نئے سال کے لئے دوست احباب نے ایک دوسرے کو نیک خواہشات کے سوغات بھیجے ۔۔ہم مسمانوں کا نیا سال کب کا شروع ہو چکا ہو تا ہے ۔۔مجھے بھی یادوں اور باتوں میں رکھا گیا ۔۔نیک خواہشات تحفے کا کام کرتی ہیں ۔۔میں نے اپنے کمرے کی دیوار پر بلکل اپنی نشست کے سامنے گھڑیال لگایا ہے تاکہ یہ مجھے میری عمر کی رفتار کا پتہ دے ۔۔۔گھڑیال نے کہا ۔۔
غافل تجھے گڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹا دی ۔۔۔
یہ لمحہ نئے سال کی پہلی گھڑی تھی ۔۔میں تڑپ گیا ۔۔میں اور میرے چاہنے والے ’’سال‘‘ کی بات کر رہے ہیں گڑیال ’’لمحوں ‘‘ کی بات کر رہا ہے ۔ بہر حال ہم ’’سالوں ‘‘ کے قیدی ’’لمحوں ‘‘ کی قدر کیا جانیں ۔۔۔سب دوستوں کو’’ نیا سال‘‘ مبارک ہو ۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں