سیلاب
محفوظ تھا میں ، پر میرا گھر سیلاب کی زد میں ہے۔
گھٹائیں کہہ رہی تھیں کہ سارا شہر سیلاب کی زد میں ہے۔
مکان و لامکان میں طے یہ فیصلے ہوئے۔
کہ اب کی بار بحرو بر سیلاب کی زد میں ہے۔
وہ کہ جو آشیانہ ہوا کرتا تھا سب پرندوں کا
وہ اکلوتا شجر سیلاب کی زد میں ہے۔
میں اپنی اس بے بسی اب بھلا کیا نام دوں
چھت تو پہلے گری تھی اب میرا در سیلاب کی زد میں ہے۔
شدت اضطراب کچھی یوں گھی آب رواں کی
کہ بوند بوند تر بتر سیلاب کی زد میں ہے۔
میں نے دیکھا ہے ان سرکش و بے باک لحروں کو۔
دریا شے کیا خود سمندر سیلاب کی زد میں ہے۔
عالم پانی میں ڈوب کے نکلا تو یوں لگا مجھے
کہ میری طرح ہر بشر سیلاب کی زد میں ہے۔