374

افتتاح کی غلط رسم ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

وطن عزیز پاکستان بالعموم اور خیبر پختونخوا کا صوبہ با الخصوص افتتاح کی زد میں ہے امریکی صدر براک ابامہ نے 8سال حکومت کی اُس نے کسی پل اور سڑک کا افتتاح نہیں کیا چین کے صدر جیا نگ زی من 12سال اقتدار میں رہے اُس نے کسی عمارت یا پل کا افتتاح نہیں کیا برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر 10 سال حکومت میں رہے اس نے کسی سکیم کا افتتاح نہیں کیا پاکستان کا حال اس سے مختلف ہے یہا ں حکومت کسی عمارت یا سڑک یا پل کی منظوری اس لئے نہیں دیتی کہ عوام کو سہولت ہو بلکہ اس لئے دیتی ہے کہ اس کا افتتاح کرنے کی سعادت حاصل کی جائے سنگ مرمر یا ایلمونیم کی تختی پر اپنا نام لکھوایا جائے ایک عدد تصویر بنوائی جائے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں چھپوائی جائے اس ’’عظیم مقصد‘‘ کو سامنے رکھ کر منصوبہ منظور کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ منصوبہ کا بلیو پرنٹ نہیں ہوتا ،ٹینڈر کے کاغذات نہیں ہوتے کوئی ٹھیکہ دار ،مستری ،راج مزدور نہیں ہوتا سیاستدان کہتا ہے کہ’’ میرے نام کی تختی بناؤ مجھ سے افتتا ح کرا ؤ ‘‘چنا نچہ ہوا میں سنگ بنیا د رکھنے کی فضول اور فالتو رسم ادا ہوتی ہے ہوا میں منصوبے کا افتتاح کیا جاتا ہے یہ 1990 کے عشرے کی بات ہے چترال ٹاون میں چھاونی کے سامنے جاپانی امداد سے آر سی سی پل کی تعمیر ہو رہی تھی اُس وقت سی اینڈ ڈبلیو کے ایس ڈی او سید جلا ل الدین جان بہت فعال ،منظم اور ہر دلعزیز افسر تھے انہوں نے جاپانیوں سے کہا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے وی آئی پی شخصیت کو یہاں آنا چاہیے جاپانی سفارت خانے سے جو اب آیا جو مستری پُل کی تعمیر کیلئے آئے گا وہی سنگ بنیاد رکھے گا یہ وی آئی پی شخصیت کا کام نہیں ہے ڈیڑھ سال بعد پُل کی تعمیر مکمل ہوئی تو جان صاحب نے پھر جاپانیوں سے درخواست کی افتتاح کیلئے وی آئی پی شخصیت ہونی چاہیے جاپانی سفارت خانے سے پھر جواب آیا جو ڈرائیور سب سے پہلے گاڑی پُل سے گذارے گا وہ افتتاح ہوگا اس طرح جان صاحب کے دو بڑے ایونٹ خاک میں مل گئے مستری نے سنگ بنیاد رکھا اور ڈارئیور نے پل کا افتتاح کیا پل پر جو تختی لگائی گئی اس پر پاک جاپان دوستی کا ذکر آیا کسی شخص کا نام نہیں آیا یہ عملیت پسندی ،حقیقت پسندی اور صداقت شعاری ہے ہمارے ہاں صداقت کا نام و نشا ن نہیں ،کام اور عمل کا کوئی اتہ پتہ نہیں نا م ونمود و نمائش کی فکر لگی ہوئی ہے ہر سیاستدان کہتا ہے کہ سرکار کا پیسہ لگے،میر انام اس پر لگایا جائے پھر کام ہو یا نہ ہو مجھے پرواہ نہیں ایک کالج کا چھ بار افتتاح ہوا کالج اب تک نہیں بنا ایک پل کا چار دفعہ افتتاح ہو اپل ابھی نہیں بنا ایک سڑک کے افتتاح کیلئے چا رسیاستدان باری باری آئے ہوا میں سنگ بنیا د ہو ا فیتہ کا ٹنے کی رسمیں ادا ہوئیں سڑک نہیں بنی اگر کسی ضلع میں چترال کی طرح چار پارٹیوں سے لوگ منتخت ہو کر ایوانوں میں پہنچے ہیں تواُ س ضلع میں افتتاح ہی افتتاح ہوتا ہے تحریک انصاف والی رکن اسمبلی افتتاح کر کے جاتی ہے تو پیپلز پارٹی والا ایم پی اے افتتا ح کیلئے آجاتاہے وہ اپنا شوق پورا کر لے تو مسلم لیگ کا ایم این اے اپنے نام کی تختی لیکر براجماں ہوتا ہے جماعت اسلامی کا ضلع ناظم بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتا بلکہ اس دوڑ میں سب سے آگے ہوتاہے پشاور یا اسلام اباد میں کوئی سکیم منظوری کے مرحلے میں ہو تو ضلع ناظم سب سے پہلے موقع واردات پر جاکر اُس کا افتتاح کرتا ہے سکیم کا غذوں میں ہوتی ہے سنگ بنیاد اور افتتاح کی تصویر اخبارات میں جلوہ دکھاتی ہے بعض سیاستدان کمزور افیسروں کو کو بلیک میل کر کے سنگ بنیاد اور افتتاح کی تختیاں سرکاری خرچ پر تیا رکرواتے ہیں ایسے سیاستدان بھی ہیں جو نام کی تختی اپنے خرچے پر تیار کرواکر گاڑی میں رکھ لیتے ہیں کہیں سے بھی کسی نئی سکیم کی بھنک پڑجائے یا خبر ہاتھ لگ جائے ،نہ آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ فوراًوہاں پہنچ کر اپنے نام کی تختی لگادیتے ہیں اور افتتاح کی تصویر اخبارات کو جاری کرتے ہیں کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ افتتاح او ر سنگ بنیاد کی بیماریاں دراصل چھوت کی بیماریاں ہیں ایک سیاستدان سے دوسرے سیاستدان کو لگ جاتی ہیں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے میر انام آئے یہ بھی اخباری دنیا میں ریٹنگ کے چکر کی طرح ایک چکر ہے اخبار اور ٹی وی والے دعویٰ کرتے ہیں کہ پولنگ سٹیشن کا پہلا نتیجہ میں نے دیا یا نواز شریف سے شہباز شریف کی ملا قات والی خبر سب سے پہلے میں نے دی اسی طرح ایک ایم پی اے کہتا ہے کہ پہلا افتتاح میں نے کیا دوسرا ایم پی اے کہتا ہے سنگ بنیا د میں نے رکھا تھا اس مسئلے کا حل مو جودہے مگر بہت مشکل ہے حل یہ ہے کہ عوامی خدمت کا جذبہ ہو ،اخلاص اور صداقت ہو تو افتتاح کی ضرورت نہیں رہتی خدمت کا جذبہ نہ ہو دل میں صدا قت اور اخلاص نہ ہو تو سنگ بنیاد ،افتتاح اور نام کی تختی کے ساتھ تصویر ہی رہ جاتی ہے ہم پاکستانی اس لحاط سے خو ش قسمت قوم ہیں کہ ہمارا ایم این اے ،ایم پی اے اور ناظم امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم سے بڑا عہدہ رکھتا ہے وہ دھڑا دھڑ سنگ بنیاد رکھتاہے افتتاح کرتا ہے فیتہ کاٹتا ہے اور اپنے نام کی تختی لگواتا ہے ایک مشہور شاعرہ غزل کے ایک مصرعے میں کہتی ہے ’’تمہارا لہجہ بتارہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے ‘‘۔آگے جاکر اسی شاعرہ نے ایک اور لاجواب مصرعہ یوں چست کیا ہے ’’ابھی سے اڑنے لگے ہوا میں ابھی تو شہرت نئی نئی ہے ‘‘۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں