220

بجٹ اور سو شل سیکیورٹی ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

سوشل سیکیو رٹی کو اُردو میں سماجی تحفظ کہا جاتاہے مگر انگریزی ترکیب اردو سے زیادہ مقبول اورزبان زد عام ہے اس کا مطلب ہے غریب ،معذور،نادار ،بوڑ ھے اور بچے کو خوراک ،لباس ،تعلیم ،علاج اور دوسری ضروریات سرکار کے خزانے سے فراہم کی جاتی ہیں سما جی تحفظ کا پہلا قانون اسلامی تاریخ کے خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ نے منظور کیا تھا اس قانون کے تحت کوئی غریب ،معذور اور نادار بنیادی ضروریات سے محروم نہیں رہتا تھا آج کل بر طانیہ میں یہ قانو ن سوشل سیکیورٹی کہلاتا ہے سویڈن میں اس قانون کو عمر کا قانون (Omer’s Law)کا نام دے کر نا فذ کیا گیا ہے 26مئی 2017کو قومی اسمبلی میں جو بجٹ پیش کیا گیا اس کے اعداروشمار بڑے شاندار ہیں اس کی تعریف بھی ہو رہی ہے مگر اس بجٹ کی سمجھ کسی کو نہیں آ ئیگی ایوان صدر، وزیراعظم ہاوس ،وزیر اعظم سکرٹریٹ اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر جتنا خرچہ آتا ہے اس رقم سے 10یو نیورسٹیاں بن سکتی ہیں یا 15بڑے ہسپتال بن سکتے ہیں یا 2 کروڑ غریبوں ،ناداروں اورمعذوروں کو سماجی تحفظ دیا جاسکتا ہے پاکستان بیت المال ، زکوۃ وعشر سکیم اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا جو بجٹ ہے اس بجٹ پر ایک کروڑ غریبوں کو سال کے 12مہینوں کی بنیادی ضروریات فراہم کی جاسکتی ہیں اس کے لئے سیاسی بصیرت ،عزم ،ارادہ اوروژن کی ضرورت ہے مہا تیر محمد، نیلسن منڈیلا،احمدی نژ اد اورلی کو ان یو اپنے گھر اور باورچی خانے کا خرچ اپنی جیپ سے اداکرتے تھے اسرائیل کی وزیراعظم مسٹر گولڈ ا میر مہمانوں کو اپنے ہاتھ سے کافی بنا کر پیش کرتی تھی قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل بنے تو انہوں نے باورچی خانے کا خرچ اپنی جیپ سے ادا کیا ہمارے بجٹ کا بڑا حصہ حکمرانوں کے کھا نے پینے پر خرچ ہوتا ہے یا ممبران اسمبلی کے بیرون ملک علاج پر صرف ہوتا ہے ہماری اسمبلیوں میں غریب کا کوئی نمائندہ نہیں جاتااس لئے بجٹ پر بجٹ کے دوران یا کٹوٹی کی تحریکیں لاتے وقت غریب کا کوئی ذکر نہیں ہوتا ہماری پارلیمانی تاریخ میں معراج محمد خان واحد رکن اسمبلی تھے جو غریب کا نام لیتے تھے اگر کبھی اتفاق سے پاکستان کے 80فیصد غریب عوام کی نمائندگی کرنے والا کوئی ممبر کسی اسمبلی میں آیا تو وہ بجٹ پر بحث کے دوران دو امور پر زور دے گا صدر ،وزیر اعظم ،گورنر ،وزیر اعلی ،کا بینہ کے ارکان ،مشیروں اور خصوصی معاونین پر خرچ ہونے والی رقم غریبوں کے لئے سماجی تحفظ کی سکیم کو دیدی جائے زکوۃ ،عشر ، بیت المال اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بھی سماجی تحفظ کی سکیم کا حصہ بنایا جائے ملک بھر میں ریونیو دفاتر اور پولیس سٹیشن ہر گاؤں کے قریب واقع ہیں ان سہولیات کے ذریعے ہر گاؤں میں غریب ،نادار اور معذور ،مستحق خاندانوں کی محتاط فہرست تیار کی جاسکتی ہے اس کام میں سیاسی کارکنوں اور ناظمین ،کونسلروں کی مداخلت کو روکا جائے تو غریب ،مستحق افراد اس فہرست میں آئینگے اگر ملک بھر میں 2کروڑ مستحق افراد کو پہلے مر حلے میں سوشل سیکیورٹی کے قانون کے تحت انشورنس کے ذریعے خوراک ،لباس ،تعلیم اور علاج معالجہ کی مفت سہولت دیدی گئی تو فلاحی مملکت کے قیام کے طرف یہ پہلا قدم ہوگا اگلے مرحلے میں مزید 2کروڑ افراد اس سکیم میں شامل ہونگے اس طرح چار مرحلوں میں ایک ہی حکومت کے دور میں ملک کے اندر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے 9 کروڑ شہری سماجی تحفظ حاصل کرینگے یہ 14 سال پہلے کی بات ہے ایک ہی گاؤں کے دو پاکستانی ناگہانی موت مرگئے دونوں بال بچہ دار تھے فقیرخان کراچی میں محنت مزدوری کرتا تھا رحمت ولی برطانیہ میں محنت مزدوری کر کے بچوں کو پالتا تھا مرنے کے بعد کراچی میں مزدوری کرنے والے کے بچوں کا چولہا بجھ گیا گھرکو تالا لگ گیا برطانیہ میں مزدوری کرنے والے کے بچوں کو سوشل سیکیورٹی کے تحت گھر کا کرایہ ،ماہانہ اخراجات کا معقول وظیفہ ،بچوں کی تعلیم اور کنبے کے علاج معالجے کا پورا خرچہ حکومت نے کسی درخواست کے بغیر ایک خودکار نظام کے تحت خود بخود اپنے ہاتھ میں لے لیا پاکستان میں یتیم ہونے والے بچے 20سال کی عمر کو پہنچ کر دیہاڑی لگا تے ہیں بر طانیہ میں یتیم ہونے والے بچے 20سال کی عمر کو پہنچ کر یونیورسٹی کی سطح پر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں مسلمان کے یتیم ہونے والے بچوں کو اسلامی ملک میں سماجی تحفظ حاصل نہیں جبکہ عیسائیوں کے ملک میں مکمل سماجی تحفظ حاصل ہے اس لئے غریبوں نے ملّی نغمے کی پیروڈی کر کے نیا ملی نغمہ بنا یا ہے جس کے ٹیپ کا بند ہے ۔
نہ میرا پاکستان ہے یہ نہ تیرا پاکستان ہے
یہ ا س کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے
بجٹ کا تعلق اگر عوام کے ساتھ جوڑنا ہے اگر ملک کی 20کروڑ آبادی میں ہر بچے کو پاکستانی شہری کا فخر سکھانا ہے تو پھر بجٹ میں سو شل سیکیورٹی کا منظم اور مستحکم نظام قائم کر کے غربت کی چکی میں پسنے والے عوام کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ زکو ۃاور بیت المال سیاسی رشوت نہیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بد انتظامی کی بد ترین مثال نہیں بنے گی سو شل سیکیورٹی کے تحت ہر مستحق خاندان کے افراد کو انشورنس کمپنی کے ذریعے سماجی تحفظ ملے گا اگلا سال انتخابات کا سال ہے اس لئے موجودہ بجٹ اجلاس میں میڈیا کے ذریعے سو شل سیکیورٹی کو اجاگر کیا جانا چاہیے عوام جب پالیمنٹ سے مایوس ہوتے ہیں تو وہ میڈیا کو اپنا محور بنا لیتے ہیں ساغر صدیقی نے سو باتوں کی اک بات کہی تھی۔
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اُس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں