384

ہم سب ایک ہیں،،پروفیسررفعت مظہر

بلاخوفِ تردیدکہا جاسکتا ہے کہ پوری قوم تمامتر خامیوں ،خرابیوں اور کوتاہیوں کے باوجودحب الوطنی کے جذبے سے ہمیشہ سرشاررہتی ہے ۔یہ جذبہ ،یہ جنوں قومی دنوں کے مواقعے پرابھرکر سامنے آتاہے۔ تب کوئی سندھی ہوتا ہے نہ بلوچی ،پنجابی ہوتاہے نہ پختون ،سب پاکستانی ، صرف پاکستانی ۔دودِن پہلے کراچی سے خیبرتک پوری قوم نے 69واں یومِ آزادی اُسی جوش وجذبے سے منایاجو اِس کاخاصہ ہے۔اِس بارتو یومِ آزادی کچھ زیادہ ہی ’’کھُلے ڈُلے‘‘ اندازمیں منایاگیا۔سبب یہ کہ محترم جنرل راحیل شریف کی زیرِقیادت پاک فوج کے جرّی جوانوں نے دہشت گردی کے ناسورکو جَڑسے اکھاڑپھینکا۔ زیادہ ترواصلِ جہنم ہوئے اوربچے کھچے چوہوں کی طرح اپنے بِلوں میں گھُس گئے۔ بلوچستان میںیومِ آزادی پر400 علیحدگی پسندوں نے ہتھیارڈال کرقومی پرچم تھام لیے۔کوئٹہ میں ریکارڈقومی پرچم فروخت ہوئے اورکراچی میں تویومِ آزادی کی تقریبات کی شان ہی نرالی تھی۔13 اور 14 اگست کی درمیانی شب جونہی 12 بجے ،پوراکراچی سڑکوں پر امڈآیااور روشنیوں کا شہرآتش بازی سے جگمگااُٹھا ۔ 14 اگست کودو لاکھ سے زائدافراد نے مزارِقائد پرحاضری دی ۔اب کی باراہلِ کراچی نے جشنِ آزادی منانے کے لیے خریداری کا40 سالہ ریکارڈتوڑتے ہوئے 5 ارب روپے سے زائدکی خریداری کی ۔یہ اہلِ کراچی کااہلِ وطن کوبَرملا پیغام تھاکہ ’’ہم سب ایک ہیں‘‘۔یہی حال لاہوریوں کا بھی تھا۔لاہوریے توویسے بھی ہلّے گُلے کے شوقین ہوتے ہیں۔منچلے 13 اگست کی شب کوگھروں سے نکلے اور15 اگست کی صبح لوٹے ۔پاکستان کے تمام صوبوں کے تمام شہروں میں یہی عالم رہا۔ہرجگہ بچے،بوڑھے ،جوان اورعورتیں ہاتھوں میں قومی پرچم تھامے آزادی کے گیت گاتے رہے۔ اُدھربھارت کی سخت ترین پابندیوں اورظلم ستم کے باوجودمقبوضہ کشمیرمیں بھی جشنِ آزادی بھرپور طریقے سے منایاگیا ۔حریت رہنماآسیہ اندرابی نے پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے کہا’’ہم پاکستانی ہیں اورپاکستان ہماراہے‘‘۔ اسی تقریب میں پاکستان کے ملّی نغمے بھی گائے گئے ۔9 اگست کومحترم الطاف حسن قریشی کی PINA اورUMTکے تعاون سے PC میں ’’مسۂ کشمیر علاقائی امن وسلامتی کے لیے چیلنج ‘‘کے عنوان کے تحت ایک سیمینارکا اہتمام کیاگیا جس میں محترم سجادمیر نے بھارتی صحافی کلدیپ نائر کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اُس نے اپنے آرٹیکل میں لکھا’’کشمیراتنا بدل گیاہے کہ اب پہچاناہی نہیں جاتا۔جب میں نے گزشتہ بارسری نگرکا وزٹ کیاتھا تومحسوس ہواکہ وادی نمایاں طور پربھارت دشمن بن چکی ہے ۔سری نگرکے اندرونی علاقوں میں سبزپرچم لہراتے نظرآتے ہیں۔اِس کامطلب ہے کہ کشمیریوں کی بیگانگی اب برگشتگی میں تبدیل ہوچکی ہے اورہندوؤں اور مسلمانوں میں سماجی تعلقات بھی بڑی حدتک منقطع ہوچکے ہیں‘‘۔ کلدیپ نائرکے اِس آرٹیکل کی تصدیق مقبوضہ کشمیرکے باسیوں نے پاکستان کاجشنِ آزادی بھرپورطریقے سے مناکر کردی ۔اِس سیمینارمیں گلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن،ممتازسفارتکار مسعودخان ، عطاء الحق قاسمی، ایس ایم ظفر، عطاء الرحمٰن ،سردارآصف احمدعلی، رؤف طاہر ،رشیدترابی، حافظ حسین احمداورسردارابراہیم کے صاحبزادے خالدابراہیم کے علاوہ کئی اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔ ابتدائی کلمات جناب الطاف حسن قریشی نے اداکرتے ہوئے فرمایاکہ مقبوضہ کشمیرمیں تحریکِ آزادی نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اورنسلِ نَوکو حقائق سے باخبر رکھنابہت ضروری ہے ۔محترم عطاء الحق قاسمی نے بات توبہت مختصرکی لیکن اُن کی کشمیری بھائیوں سے محبت کے جذبوں میں گُندھی نظم’’تمہارے رستے میں روشنی ہو‘‘میں وہ سب کچھ تھاجوہم سنناچاہتے تھے۔’’بے چین روح‘‘ ڈاکٹرعمرانہ مشتاق ،ڈاکٹرسعدیہ بشیراور فاطمہ احمدنے اپنی شاعری سے ماحول کوگرمائے رکھا۔چارگھنٹوں پر محیط اِس مذاکرے کالبِ لباب یہ تھاکہ کشمیرکے تنازعے کے حل ہونے کاوقت قریب آن لگاہے اوربھارتی ظلم وجورکی گرتی دیواروں کو بس ایک دھکے کی ضرورت ہے۔
آمدم بَرسرِمطلب ، اب کی بار جشنِ یومِ آزادی کی شان ہی نرالی تھی ۔اگرتھوڑاساغورکیا جائے تویہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ پوری قوم کے ایک صفحے پرہونے کاسبب ’’شریفین‘‘کے کندھے سے کندھاملا کرکھڑے ہونے میں مضمرہے۔ پاکستان کی تاریخ تویہی بتاتی ہے کہ سیاسی وعسکری قیادت نے کبھی ایک ’’میز‘‘پربیٹھنا گوارانہیں کیا جس کی بناپرہمیشہ مارشل لاؤں کی صورت میں المیے رونماہوتے رہے لیکن اب کی باریہ معجزہ رونماہواکہ وزیرِاعظم میاں نوازشریف صاحب اورچیف آف آرمی سٹاف محترم جنرل راحیل شریف ہرجگہ اورہر مقام پراکٹھے نظرآئے۔اسی یگانگت نے وزیرستان میں دہشت گردی کوجَڑ سے اکھاڑپھینکااور ہرکسی کے لیے اپنی آغوشِ محبت واکرنے والے کراچی کی روشنیوں کا سفرپھر سے شروع ہوگیاجو باہربیٹھے الطاف بھائی کوگوارہ نہ ہواکیونکہ اگرکراچی ایک دفعہ پھرعروس البلادبن گیاتوالطاف حسین کو’’بھائی‘‘کون مانے گا۔ اپنے استعفے کی ’’نصف سینچری‘‘ مکمل کرنے کے بعد الطاف حسین نے اچانک اپنے اراکینِ پارلیمنٹ ،سینیٹرزاور ممبران صوبائی اسمبلی کومستعفی ہونے کاحکم دے دیا۔ بہانہ یہ کہ رینجرزکاکراچی میں اَپریشن غیرجانبدارانہ نہیں، ایم کیوایم کے خلاف ہے اِس لیے
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اُس کے آج حریفانہ کھینچئے
غلط ،بالکل غلط ،اگر آپریشن صرف ایم کیوایم کے خلاف ہوتاتو زرداری صاحب کویہ نہ کہناپڑتا کہ ’’اینٹ
سے اینٹ بجادیں گے‘‘۔ لیاری میں ہرروز چھاپے پڑتے نہ سُنّی تحریک کے مرکزپر دھاوابولا جاتا ۔حقیقت یہی کہ آپریشن بلاامتیاز دہشت گردوں ،بھتہ خوروں ،پرچی مافیہ اورٹارگٹ کلرزکے خلاف ہورہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ الطاف حسین کااچانک استعفوں کا فیصلہ اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی گہری سازش کاحصّہ ہے ۔پاکستان دشمن قوتوں ،خصوصاََبھارت کویہ اقتصادی راہداری کسی صورت قبول نہیں۔ بھارت ’’را‘‘کے ذریعے پاکستان میں افراتفری کے منصوبے بناتارہتا ہے اوریہ بھی اظہرمِن الشمس کہ ’’بھائی‘‘کو ’’را‘‘سے فنڈنگ ہوتی رہی۔اِس لیے لامحالہ کہناہی پڑتاہے کہ الطاف حسین استعفوں کے ذریعے افراتفری پیداکرکے اپنے غیرملکی آقاؤں کے ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں لیکن ہمیںیقین ہے کہ اُن کے مکروہ عزائم انشاء اللہ کبھی پورے نہیں ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں