ارض چترال کا اپنے نمائندوں کے نام کھلا خط۔۔۔۔محمد جاوید حیات
تم جو بھی ہو جیسے بھی ہو میری مٹی سے اٹھے ہو ۔تمہارا خمیر میری مٹی سے بناہے ۔۔تم نے پہلی سانس اسی ہوا سے لی ۔۔پانی کا پہلا قطرہ اسی گھات کا تھا ۔۔آپ کے کان اسی ماں کے شرین الفاظ سے پہلی دفعہ اشنا ہوئے ۔۔یہاں کے ابو نے تجھے کاندھوں پہ اٹھایا ۔۔تمہاری پیدائش پر یہاں پہ جشن ہوئی ۔۔لوگ مبارک باد دینے تمہارے گھر کی طرف آنے لگے ۔۔تمہاری بھڑوتری میں یہاں کی گلی کوچوں کا کردار ہے ۔۔یہاں کے بزرگوں نے تمہیں دعائیں دی ۔۔یہاں کی ماؤں نے تری بلائیں لی ۔۔یہاں کی بہنوں نے تجھ سے محبت کی ۔۔تری جوانی کی رنگینیاں ۔۔تیرے الفاظ کی گونج۔۔تیرے قہقہوں کی صدائیں ۔۔تیرے آنسوں کی پھوار ۔۔تیرے آرزوں کا محور ۔۔تیرے بچپن کی تیتلیاں ۔۔تیری جوانی دیوانی کے بھونرے ۔۔تیرے کھیلوں کے میدان ۔۔تیری سیر گاہیں ۔۔تیرے پنگھٹ کے دوربین نظارے ۔۔تیری پکار اور صداؤں کی بازگشت ۔۔سب یہاں کے ہیں ۔۔پھر تو نے خواہش کی کہ تو اس مٹی کی خدمت کرے گا ۔۔تو قیادت کرے گا ۔۔توحق کے لئے لڑے گا ۔۔اور تو اس مٹی کا حق چھین کے لائے گا ۔۔تجھ پہ اعتماد کیا گیا ۔۔آرزوئیں تجھ سے وابستہ کی گئیں ۔۔امیدیں باندھیں گئیں ۔۔تیرے تعارف کے لئے لوگ گھر گھر پہنچے ۔۔تیری تعریفیں کی گئیں ۔۔تیرے گن گائے گئے ۔۔تیرے لئے زندہ باد کے نعرے بلند ہوئے ۔۔تالیاں بجائی گئیں ۔۔تیرے سر پہ اقتدار کا تاج رکھا گیا ۔۔۔تو لیڈر بنا ۔۔حق حا صل کرنے ایوان اقتدار پہنچا ۔۔یہ تمہاری مختصر کہانی ہے ۔۔یہ حقیقت ہے اس سے تو انکار نہیں کر سکتا ۔۔
اب مجھے سنو تمہیں کیا کرنا ہے ۔۔اقتدار نیندیں چھین لیتا ہے ۔۔تو اپنی نیندیں قربان کر ۔۔اقتدار آرام و چین سے محروم کرتا ہے ۔۔تو بے چین ہو جا ۔۔اقتدار امانت ہے تو امین بن جا۔۔اقتدار صداقت مانگتا ہے تو صادق بن جا ۔۔اقتدار عدل کے ترازو میں تجھے تولتا ہے تو عدل کر ۔۔تو اس مٹی سے وفا نبھا ۔۔دیکھو اس مٹی کا تجھ پہ قرض ہیں ۔۔وہ قرض چکا ۔۔اس کی گلی کوچے تجھے پکارتے ہیں ۔۔اس کی سڑکیں دھائی دے رہی ہیں ۔۔تورکھو روڈایم پی اے کی بے اعتنائی کا شکوہ کر رہی ہے مگر ایم این اے کو داد دے رہی ہے ۔۔چترال ناظم اور دو ایم پی ایز کو پکار رہا ہے ۔۔کہاں ہو تم ۔۔بجلی گیس ۔۔سڑکیں ۔۔سکول کالج دارالعلوم ۔۔ہسپتال پینے کا پانی ۔۔دفتروں میں انصاف ۔۔اچھے بھلے کی تمیز۔۔پولیس عدالت ۔۔قوانین۔۔شندور روڈ ۔۔بونی مستوج روڈ ۔۔ریشن کا بجلی گھر ۔۔دوہزار پندرہ کے سیلاب میں بہ گئی پلیں ۔۔وہ تباہ شدہ زمینات ۔۔وہ مالک مکانا ت۔۔وہ نامکمل منصوبے ۔۔یہ سب آپ کو پکار رہے ہیں ۔۔کہہ رہے ہیں کہ اس دن کو یاد کرو کہ تم حق لینے اور دینے کی قسمیں کھا رہے تھے ۔۔زندہ باد کے نعروں کے جواب میں آپ تسلیاں دے رہے تھے ۔۔تم لوگ اپنے آپ کا محاسبہ کرو ۔۔سوچو کہ تم نے کیا کیا ہے آتش کا یہ شعر بار بار گنگناؤ۔۔۔
سنتے بھی ہو جہان میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
آپ کبھی ’’میں نے کیا ‘‘نہ کہیں ۔۔یہ انانیت ہے ۔۔یہ لیڈر شب کو تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔۔تمہیں یقین ہو جائے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے ۔۔تو چمکتی گاڑی میں پھرتے ہوئے ۔۔پارلیمنٹ کی بھول بھلیوں میں ۔۔پارٹیوں کی رنگیوں میں ۔۔بڑے ہوٹلوں کی چکاچوند میں اپنی گلی کوچوں کو مت بھول ۔۔کسی روشن خیال آزاد منش خاتوں سے انگریزی میں بات کرتے ہوئے اپنی اس ان پڑھ ماں کو مت بھول جس نے تجھے ووٹ سے نوازا۔۔۔تونعمے سن تھرکتے جسمیں بھی دیکھ مگر اس لوری کو یاد رکھ ۔۔جب ماں کہتی تھی ۔۔کہ میرا شہزادہ ملک و قوم کی خدمت کرے گا ۔۔تو ہفت خوان سجا مگر کالی چائے کے ساتھ روکھی کھانے والوں کو مت بھول ۔۔تو شہروں میں سردیوں کی سہانی شاموں کا مزہ لے مگر اپنے گاؤں کی برف نہ بھول کہ برفانی تودوں کے نیچے چاند چہرے ابدی نیند سو جاتے ہیں ۔۔تو فانوس جلا اوراپنا ارد گرد روشن کر ۔۔مگر اپنی دھرتی کی ان کالی شاموں کو نہ بھول ۔۔تمہارے گاؤں کی ایک ان پڑھ بوڑھی ماں کو تیرے بارے میں کچھ پتہ نہیں کہ تیری زندگی کیسے گزر رہی ہے ۔۔وہ اپنی اندھیر نگری میں ٹاکم ٹوئیاں کھا رہی ہے ۔۔تو اس کی فکر کر کہ تیرے اقتدار کے تاج سے اس کی حمایت کی خوشبو آرہی ہے ۔۔تو ان معصوم چھوٹے ٹھوکریں کھاتے بچوں کے مستقبل کی فکر کر جن کو اعلی تعلیم حاصل کرکے اس قوم کو سنبھالا دینا ہے ۔۔تو ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو دھیان میں لا کہ ان میں روز گاڑیوں کے پرخچے اڑ رہے ہیں اور انسانی جانوں کا نام و نشان مٹ جاتا ہے ۔۔تو ان ہسپتالوں کی خبر لے کہ ان میں ایمبولنس نہ ہونے کی وجہ سے کتنے بے بس راستوں پہ دم توڑ دیتے ہیں ۔۔تو قانون کے پاسبانوں کو تنبہ کر کہ دس سال کا بچہ موٹر سائیکل لے کے سڑکوں پہ اوڑے جا رہا اس کا پوچھنے والا کوئی نہیں ۔۔تم اندھیر نگر ی میں مذید چوپٹ راج نہ رچا۔۔تو جس گاؤں میں جا تو کہہ دے ۔۔’’کہ مجھے بیشک ووٹ نہ دو مگر اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا ۔۔یہ دعائیں ووٹوں سے قیمتی ہوتی ہیں ۔۔تو جان لے کہ تو اس وقت لیڈر بنے گا جب دلوں پہ حکومت کرے گا جب احساسات پہ چھا جائے گا ۔۔جب خیالوں میں بس جائے گا ۔۔تو خیالوں میں ہواؤں میں محل نہ بنا ۔۔تو زمین پہ آمیری مٹی سونگھ لے اس سے وفا محبت اور احترام کی خوشبو آئے گی تمہاری مشام جان معطر کرے گی ۔۔پھر تیرا دل کرے گا کہ اس کو چوم لے ۔۔جو اپنی خاک سے بے وفائی کرے گاتو یہ مٹی خود بخود اس کو رد کرے گی اور اقتدار کا تاج اس کے سر سے ازخود ہٹ جائے گا ۔۔۔
اپنا بہت خیال رکھئے گا ۔۔۔آپ سب کا چھترار