اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے عام انتخابات کے بعد ملک گیر جماعت کہلانے والی پیپلزپارٹی محض ایک صوبے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور شائد یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ صوبہ سندھ میں دکھائی دیتی ناقص طرز حکمرانی،بدعنوانی کے الزامات، اہم پارٹی رہنماؤں اوروزراء کے خلاف ریاستی اداروں کی جانب سے مقدمات کے اندراج اورپکڑدھکڑ ،پنجاب بشمول ملک کے دیگرحصوں میں سابق وزراء،ممبران اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں کاپیپلزپارٹی چھوڑکر دیگرجماعتوں میں شمولیت اختیارکرنے کی سنائی دیتی اطلاعات کے باعث پیپلزپارٹی کی پوزیشن آئے روز کمزور ہوتی دکھائی دے رہی تھی ایسے میں کہاجاسکتاہے کہ 15ستمبرکودیر بالامیں صوبائی حلقہ پی کے 93کا ضمنی الیکشن صاحبزادہ ثناء اللہ نے جیت کر نہ صرف جماعت اسلامی کے امیدوارملک اعظم کوشکست سے دوچارکیابلکہ پیپلزپارٹی کی ساکھ کوسنبھالتے ہوئے بھٹوکی جماعت کوختم کرانے کے درپے قوتوں کویہ واضح پیغام بھی دیاکہ پیپلزپارٹی میں اب بھی دم باقی ہے ۔بظاہر تویہ ایک صوبائی حلقے کاضمنی انتخاب تھاجس کی ہارجیت کا حکومت سازی یااسمبلی میں عددی برتری دکھانے سے کوئی تعلق نہیں تھاتاہم بادی النظرمیں یہ بڑی اہمیت کاحامل معرکہ تھاکیونکہ دیربالابالخصوص مذکورہ انتخابی حلقہ جماعت اسلامی کامضبوط ترین گڑھ تھا۔1997ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون کے ملک جہانزیب یہاں سے کامیابی حاصل کرکے ممبراسمبلی اور صوبائی وزیر بنے تھے مگراس حقیقت کونظراندازنہیں کیاجاسکتاکہ اس الیکشن میں جماعت اسلامی نے انتخابی بائیکاٹ کررکھاتھا اس کے علاوہ اگر ماضی کے جھروکوں میں جھانکاجائے توڈاکٹر محمد شاہ ہارون،ملک بہرام خان اور ملک حیات خان کی صورت میں اس نشست پر کامیابی ہمیشہ جماعت اسلامی ہی کوملی ہے اور شائد ماضی کی تاریخ کی روشنی میں اندازے یہی لگائے جارہے تھے کہ کامیابی اس باربھی جماعت اسلامی کی ہوگی مگرنتیجہ اس کے برعکس برآمدہوا۔پیپلزپارٹی کے امیدوار صاحبزادہ ثناء اللہ نے تاریخ رقم کرتے ہوئے جماعت اسلای کے قلعہ میں شگاف ڈال کر معرکہ واضح برتری کے ساتھ سرکرلیاہے۔ غیر معمولی نوعیت کاحامل یہ انتخابی معرکہ کتنااہم اور پیپلزپارٹی کی ساکھ بحال کرنے کے لئے کتناضروری تھااس کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے فون کرکے صاحبزادہ ثناء اللہ کوجیت پر مبارکباد اور شاباش دی ہے۔اگرچہ مذکورہ الیکشن میں جماعت اسلامی کی ناکامی کواپ سٹ شکست قراردیاجارہاہے کیونکہ یہ جماعت اسلامی کاگڑھ تھااور یہاں اس کے امیدوارکرہراناکسی صورت آساں کام نہیں تھالیکن اگرذکرہوپیپلزپارٹی کے امیدوارصاحبزادہ ثناء اللہ کے سیاسی کردارکاتو اس کی روشنی میں جماعت اسلامی کی شکست کواپ سٹ قرارنہیں دیاجاسکتاکیونکہ اس الیکشن میں جہاں جماعت اسلامی کی کامیابی کے دعوے کئے جارہے تھے وہیں پر پیپلزپارٹی کے امیدوار کی جیت کے امکان کو بھی واضح طورپر ظاہرکیاجارہاتھااور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ صاحبزادہ ثناء اللہ وہ سیاسی شخصیت ہیں جن کی پوری زندگی جہدمسلسل سے عبارت ہے قریباََ عرصہ تین سال قبل تک جماعت اسلامی کے ہم سفررہنے والے صاحبزادہ ثناء اللہ 2001اور2006 میں ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبررہے ہیں قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2001کے بلدیاتی انتخابات میں قانونی اتارچڑھاؤ کے پیش نظر پشاورہائی کورٹ سے جس دن انہیں بطورامیدوارالیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی تھی اس کے عین اگلے دن الیکشن ہوناتھایوں ان کا کوئی پوسٹرلگاتھانہ ہی انہوں نے کوئی انتخابی مہم چلائی تھی اس کے باوجودانہوں نے نہ صرف الیکشن جیت کرکامیابی اپنے نام کرلی تھی بلکہ لگ بھگ 23سوووٹ بھی حاصل کئے تھے جس سے ان کی عوامی مقبولیت ، سیاسی فہم وفراست اوربردباری کا اندازہ باآسانی لگایاجاسکتا ہے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں ہٹ ٹرک کرتے ہوئے وہ تیسری مرتبہ ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبرمنتخب ہوئے تھے تاہم صوبائی اسمبلی کامذکورہ ضمنی انتخاب لڑنے کے پیش نظرالیکشن کمیشن کے وضع کردہ قواعد کے مطابق حلف لینے سے قبل ہی ڈسٹرکٹ کونسل کی نشست سے دستبردارہوگئے تھے۔اگرچہ ان کی اس غیر معمولی انتخابی کامیابی،اونٹ کوکروٹ بٹھانے اور جماعت اسلامی کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے پیچھے کئی عوامل کارفرمارہے ہیں اوران میں قابل ذکرامریہ رہاکہ کئی سیاسی قوتوں نے مل کرجماعت اسلامی کامقابلہ کیا جس میں عوامی نیشنل پارٹی اورمسلم لیگ نون سمیت تحریک انصاف کے باغیوں کابھی کرداررہامگران سیاسی جماعتوں کوایک پلیٹ فارم پرجمع کرنے کاکریڈٹ بھی صاحبزادہ ثناء اللہ کوہی جاتاہے ورنہ اس کافائدہ جماعت اسلامی بھی اٹھاسکتی تھی اگروہ غیرمعمولی طورپر پراعتمادنہ ہوتی تو۔ شائدیہ کہناغلط نہ ہوکہ صاحبزادہ ثناء اللہ قسمت کادھنی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑادل گردہ بھی رکھتے ہیں کیونکہ جس محاذپروہ جم کرلڑرہے تھے وہاں لڑنااورلڑکرجیتناآسان کام نہیں تھااور شائد یہ ان کے بغیرکسی کے بس کی بات نہیں تھی کیونکہ پی کے 93 کے اندر جماعت اسلامی کی عددی حیثیت سے انکارممکن ہے نہ ہی کئی دفعہ ممبر خیبرپختونخوااسمبلی رہنے والے ملک بہرام خان کے خاندان کی حیثیت اہمیت اور سیاسی کردارکو نظراندازکیاجاسکتاہے۔مگراب جبکہ صاحبزادہ ثناء اللہ غیرمعمولی کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے جیت اپنے نام کرچکے ہیں توپی کے93میں ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی ہے لیکن اٹھتاسوال یہ ہے کہ کیاصاحبزادہ ثناء اللہ مستقبل میں اپنی اس کامیابی کادفاع کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے؟ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی کامیابی پر خوشی کاجشن منانے والے صاحبزادہ ثناء اللہ علاقائی مسائل ومشکلات اورعوامی ضروریات کااحساس کرتے ہوئے انقلابی حکمت عملی مرتب کرنے پر توجہ دیں اور اس حساس برتری میں مبتلانہ رہیں کہ وہ کچھ کریں یاکریں عوام ہر بارانہیں ہی کامیابی سے نوازتے رہیں گے۔ اب جبکہ وہ بحیثیت ایم پی اے حزب اختلاف کاحصہ ہوں گے تویہ دیکھنا دلچسپ ہوگاکہ ان کی ترجیحات کیارہتی ہیں اوراپنے حلقے کے عوام کے لئے کیاکچھ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں جن سے وہ ابھی تک محروم رہے ہیں۔یہ الیکشن جیتنامشکل تھامگرجیت کوبرقراررکھنابھی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ دیکھتے ہیں ہوتاہے کیا۔