ہم تعلیم یافتہ بھی اب تک گمراہ تھے۔۔۔۔۔۔ تحریر: فخرالدیناخونزادہ
یہ 2013ء میں الیکشن کے قریبی دنوں کی بات ہے کہ میں اسلام آباد سے چترال کی طرف آر ہا تھا۔ٹوڈی گاڑی کا ڈرائیور جس کا تعلق دیر سے تھا، میری خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے راستے میں بلا ناغہ اور یک طرفہ محو گفتگو تھا۔ جب ہم بٹخیلہ کے مقام پر پہنچے تو سامنے سے ایک سیاسی پارٹی کا جلسہ نمودار ہوا۔ ڈرائیور کاموضوعسیاست کی طرف مُڑگیا۔ اس نے اگلے پانچ منٹ تک اس موضوع پر رائے زنی کی، میں نے پہلی دفعہ اُس کے تکلم کی روانی کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہوئےڈرائیوروں کے ہی انداز میں پوچھا کہ آپ اگلے الیکشن میں کس کو ووٹ دیں گے؟ایک ہی سانس میںجواب دیا، جیسا کہ وہ میرے اس سوال کیلئے تڑپ رہاتھا،” میں پی ٹی آئی کو ووٹ دوں گا” اتنا کہہ کر اس نے میرے طرف دیکھا، اور توقع کی کہ میں اِس تُرنت جواب کی وجہ بھی پوچھوں سو میں پوچھے بغیر نہیں رہ سکتاتھا، کوئی خاص وجہ؟ اس نے کہا میں پہلے پیپل پارٹی میں تھا۔ قتل کرکے جیل گیا۔ تین سال تک جیل میں رہا لیکن نجم الدین ایک دفعہ بھی میرا پوچھنے نہیں آیا۔ میں خود پیسے لگاکر جیل سے رہا ہوا۔ الیکشن سے پہلے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہمیں آپ کی ہر طرح کی مدد کروں گا۔ آپ تعلیم یافتہ بندہ ہیں بتائیں میں اس کو کیوں ووٹ دوں؟
ہمارے ملک کےاکثر لوگوں کی سیاسی سوچ اب تک اس ڈرائیور سے مختلف نہیںتھی اور ان لوگوں کو اس طرح سوچ بنانے میں سیاسی شعبدہ بازوں کا بڑا اہم کردار تھا۔ ہمارے ارد گرد کچھ لوگ ذاتی مفاد کے لیے لوگوں کو سیاسی طور پر گمراہ کرکے ایسے خیالات اور توقعات رکھنے پر مجبور کرتے تھے۔ یہ ڈرائیور پاکستان کے اس وقت کے نیشنل اسمبلی کے ممبر اور وفاقی وزیر نجم الدین سے اس طرح کی توقع اس لیے کرتا ہے کہ نجم الدین خود یا اس کا کوئی نمائندہ ووٹ کے دوران اس سے ذاتی مدد اور فائدے کی بات کی ہوگی۔ یہ ڈرائیور اُس مدد کا وعدہ اپنے جرم سے بچنے کے لیے استعمال کرنے کی امید میں تھا۔
ملک کے ہر گاؤں اور شہر میں اس طرح کے لوگوں کی بھر مار تھی۔ لوگ سیاسی پارٹیوں کے لیے اس لیے ووٹ مانگتے یا ان کی حمایت کرتے ہیں کہ اس پارٹی کی حکومت میں یا ان کے مجرمانہ کاموں کو تحفظ ملتا تھا یا کوئی ذاتی مفاد وابستہ تھا.یہلوگ دوسرے سادہ لوح لوگوں کا اپنے ان مذموم کاموں کی تکمیل کے لئے استعمال کرتے آرہے تھے۔ کسی پارٹی کو ا پنےذاتی مفاد کے لیے جتواتے، گاؤں کے ایک ٹھیکیدار کو لیں، یہ ٹھیکیدار کسی پارٹی کو اس لیے جتوانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس پارٹی کی حکومت میں اس کوٹھیکوں میں گھپلے کرنے کی کھلی آزادی ملتی تھی۔ گرم چشمہ روڈ کو بارہ فٹ چوڑا بناکر ۲۴ فٹ کے بل پاس کراتا، تورکھو میں سے گھوسٹ ہائی وے گزارنے کا بل منظورکراتاتھا، لاوئی واٹر چینل کو مکمل کیئے بغیر پوری رقم آسانی سے وصول کرتا،سیاسی لیڈر وں کےیہ لوٹے ووٹ کے بدلے میں لوگوں سے کسی بڑے کام کا جھوٹا وعدہ کرتے، ترقیاتی کاموں کے پہلے سےبچائے ہوئیے سیمنٹ، پائپ،ہتھریڑھی دیتے یا الیکشن کے بعد منتخبنمائندوں کو لاکر واپڈا سے غیر قانونِی قبضہ کئےہوئےٹرانسفرمروں کے افتتاح کی شو بازی کرتے یا لوگوں کو مجرمہ کاموں کی سزا سے بچانے کا وعدہ کرتے،گاؤں میں مذہبی ٹھیکیداروں کو لیں، یہ لوگ پہلے مزاریں بناکر لوگوں سے خیراتیں، ذکوۃٰاور صدقات بٹورتے رہے ۔ وہاںکاروبار دھیما پڑ گیا تو سیاست کا رخ کیا۔ یہ جنت کے سرٹیفیکیٹ کا جھانسہ دے کر لوگوں سے ووٹلیتے اور کہتے رہے کہ اگر گاؤں میں ہم نے پائپ لائن بچھائی تو پورا گاؤں اس کے پانی پینے سے جنت میں جائے گا۔ دوسروں کاکام یہودیوں کی سازش قرارپاتا، ان کی پائپلائنوں کا پانی حرام بن گیا۔ تر قیاتی رقم کا زیادہ حصہ خیرات سمجھ کر اپنے جیب میں ڈالنا اپنا حق سمجھتے۔ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کو ہم دانش ور سمجھ کر ان کی باتوں میں آتے۔ یہ لوگ اپنی تقریروں اور اخباری کالموں کے ذریعے اپنے ذاتی مفاد کے لیے لوگوں کو گمراہ کرتے ۔ کسی پارٹی کی حمایت اس لیے کرتے کہ اس پارٹی کی حکومت میں مفاد تھا۔ کے پی میں گزشتہ دور حکومت میں حکومتی اعلی عہدوں پر سبعوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو لگایا گیا۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلروں سے لے کر اتھارٹیوں کے چرمینوں تک سب اس پارٹی کے حمایتی لوگ تھے۔ ان لوگوں کو اس لیے لگائے گئے تھے کہ ووٹ سے پہلے انھوںنے عوامی نشنل پارٹی کے لیے کافی پا پڑبیلےہوئیےتھے ۔ ایم ایم اے کے دور میں بھی اعلی تکنیکی عہدوں پر ناتجربہ کار مولویوں کو لگا دیا گیا ۔ووٹ سے پہلے عرفان صدیقی جنگ گروپ میں نون لیگ کی حمایت میں اس لیے لکھ رہا تھا کہ اس کو وفاقی مشیر بننے کا مکمل یقین تھا۔ اور نون کی حکومت آتے ہی اس کو یہ عہدہ مل گیا کچھ اس طرح کا حال عطاؤلحق قاسمی کا ہے۔ پی ٹی وی کی چیرمین شپ کے عہدے کا نمک حلال کررہاہے۔
سوچئے! واپڈا کے ٹرانسفرمروں کے ساتھ منتخب نمائندوں کا کیا تعلق؟ اسلام آباد میں اگر کوئی ٹرانسفر مر خراب ہوتو ایک فون پر چند گھنٹے میں نیا ٹرانسفر مر آتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں کا تعلیمی یافتہ طبقہ اپنے حقوق جانتا ہے۔ اگر ٹرانسفر مر نہیں لگایا گیا تو صرف ایک بندہ جاکرانجینئر کا گربیان پکڑتا ہے ۔ کیا ملک کے دور دراز علاقے سوات ، دیریا چترال پاکستان کا حصہ نہیں ہیں؟بالکل ہیں۔لیکن معلومات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہمتعلیم یافتہ بھی اب تک گمراہ تھے۔ اس سے فائدہ اٹھاکر دوسرے لوگ اپنی شوبازی کے لیے ہم کو استعمال کرتے تھے ۔ یہ ہی لوگ خود وقت پر ٹرانسفر مر لگانے نہیں دیتے۔ اب معلومات تک رسائی مل چکی ہے فور-جی انٹرنیٹ اور ٹی وی کے ۸۰ چینل دور دراز پہاڑوں میں دیکھے جارہے ہیں۔ انٹر نیٹ کے ذریعے ہم کسی بھی دفتر کی الماریوں تک پہنچ گیَے ہیں ۔اب حقیقت ہم پر واضح ہوچکی کہ ٹرانسفر مر کا افتتاح تو ہونا ہی نہیں چاہیے ان کے پاس کسی میگا پروجیکٹ کی افتتاح کا بھی حق اور اتھارٹی نہیں ۔ کسی کام کےافتتاح کے لیے متعلقہ محکمہ””ورک آرڈر” جاری کرتا ہے یہ ورک آرڈر ایکایک پروجیکٹ مینجر یا ایک سب انجنیئر کے نام جاری ہوتاہے۔ وہ اس پروجیکٹ کے افتتاح یا بند کرنے کا قانونی حق رکھتا ہے۔ منتخب نمائندہ کے گلے میں ہار ڈال کرپروجیکٹ کا افتتاح صرف شو بازیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ گزشتہ حکومت میں چترال میں بہت سے کاموں کا قانونی تقاضا پورا کیے بغیر صرف نمائندوں کے گلے میں ہار ڈال کر جعلی افتتاح کیا گیا۔ کسی بھی پروجیکٹ پر اس دور حکومت میں کام شروع نہیں ہوا تھا۔
ہمارے منتخب نمائندوں کا مکمل نام “ممبر قانون ساز اسمبلی” ہے۔ ان کا کام قانون سازی ہے۔ملک کے انتظام وانصرام، عوامی مسائل کے حل اور لوگوں کو سہولیات بہم پہنچانے کیلئے قانون سازی کرنا ہے۔ پرانے اور ناقابل عمل قوانینکو تبدیل کرنا ہے ، ان کا کام گاؤں کا ٹرانسفرمر کا افتتاح نہیں۔کے پی میں گزشتہ دور حکومت میں صوبے کے نام کو تبدیل کرنے کی حمایت میں چترال کے منتخب نمائندوں کے ساتھ یہ وعدہہوا تھا کہ” دریا کابل” کا نام تبدیل کرکے” دریا چترال” رکھا جائے گا لیکن ہمارے نمائندے لیٹرینوں کے افتتاح اور ہتھ ریڑھی تقسیم کے چکر میں اس وعدے کو بھی فراموش کرگئے۔ صوبے کے بڑی لسانی گروہ نے تو اپنی شناخت کو قانونی شکل دیدی لیکن ہماری شناخت کو ان کی وجہ سے دھچکا پہنچا ۔
ایک دفعہپھر کھ لوگ ہمیں گمراہ کرنے کے لیے اکٹھےہوئے ہیں وہ مختلف طریقوں سے ہمیں ورغلانے اور لوگوں کے مجرمہ کاموں کو تحفظ دینےکا وعدہ کر رہے ہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ ہم مزید ان گمراہ کرنے والوں کو پہچان لیں۔ دیر کا ایک ڈرائیور پانچ سال پہلے سمجھ گیا کہ ووٹ کے وعدے جھوٹے ہوتے ہیں ہم اب سمجھ گئے ہیں۔ اپنے ووٹ کو اپنی عقل سلیم کے مطابق اور لوگوں کےذاتی مفاد کے بجائے قومی مفاد کے مطابق استعمال کریں گے۔گاؤں کے نیم تعلیم یافتہٹھیکیداروں سے ہم خود زیادہ جانتے ہیں۔عطاولحق قاسمی جیسے ستر سالہ بوڑھوں سے ہماری معلومات وسیع ہیں۔ ہماریچار انگلیوں کےنیچے پوری دنیا ہے کسی پارٹی کے ماضی کی کارکردگی اور آنے والے ارادے سے بھی ہم مکمل اگاہ ہیں۔ کسی لیڈر کے ماضی اور و ژنکو ہم خود ہی اچھی طرح جانتے ہیں ۔ اب ہم نے مزید گم راہ نہیں ہونا۔ ہم تعلیم یافتہ ہیں۔