صدا بصحرا۔۔۔۔نیا سیاسی منظر نامہ۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ
سپریم کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم محمدنوازشریف کو پاکستان مسلم لیگ کی صدارت سے ہٹانے کے بعد جو نیا سیاسی منظر نامہ سامنے آیا ہے اس میں ملکی سیاست کے اندر کسی بڑی تبدیلی کے اشارے نہیں ملتے ۔حالات جوں کے توں رہیں گے البتہ پاکستان مسلم لیگ کے
ا ندر نئی طاقت آجائے گی ۔پارٹی کی کمزوریاں ختم ہو جائینگی اور مستقبل میں نون کے نام سے منسوب مسلم لیگ کو ترقی کے ووٹوں کے علاوہ ہمدردی کے ووٹ بھی ملیں گے ۔یہاں فرد اور پارٹی کو الگ الگ کرکے پارٹی کومضبوط کیا جائے گا ۔اس کے اشارے بھی مل چکے ہیں شاہد خاقان عباسی کا وزیراعظم ہونا اس کی طرف مثبت اشارہ تھا ۔وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو پارلیمانی لیڈر کے لئے نامزد کرنا دوسرا نمایاں اشارہ تھا ۔مسلم لیگ (ن)میں دوسری، تیسری اور چوتھی سطح کی قیادت موجود ہونے کے مزید اشارے بھی ملیں گے اگر نواز شریف کو جیل میں قید و بند کی سزا دی گئی تو ان کی پارٹی مزید مقبولیت حاصل کرے گی ۔پاکستان پیپلز پارٹی ،اور مسلم لیگ (ق)کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کریگی ۔پاکستان تحریک انصاف کا ون پوائنٹ ایجنڈا ختم ہو چکا ہے ۔طاہرالقادری کا منشور بھی دم توڑ چکا ہے ۔شیخ رشید احمد کی عوامی مسلم لیگ سیاست میں قابل ذکر جماعت نہیں حالیہ برسوں میں مسلم لیگ (ن)کے’’ نون‘‘کو سب سے زیادہ کسی مخالف نے نقصان نہیں پہنچایا بلکہ وزیر اعظم کی کابینہ کے تین وزراء اور گھر کے دو افراد نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔جنرل مشرف اور نواز شریف میں ایک بات قدرِ مشترک ہے۔ دونوں کو معیشت اور ترقی کاتجربہ ہے۔ ان دونوں کا یکجا ہونا ملک اور قوم کے مفاد میں تھا۔ 1998ء میں دونوں نے مل کر ایٹمی دھماکے کر کے قوم کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا تھا۔ مگر کابینہ کے تین وزراء نے دونوں کے درمیاں غلط فہمیاں پیدا کیں۔ یہاں تک کہ جنرل مشرف کو معزول کرنے کا احمقانہ فیصلہ کر کے نوازشریف کی حکومت کا دھڑن تختہ کردیا۔ 12اکتوبر 1999ء کا واقعہ کابینہ کے 3وزیروں کی حماقت کا نتیجہ تھا۔ 2013ء میں دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد وہی 3 وزراء کابینہ میں واپس آگئے ۔ ایک بار پھر جنرل مشرف کو ٹارگٹ بنایا ۔ جنرل مشرف پر مقدمہ چلانے کا احمقانہ فیصلہ کیا۔ اخبارات کی فائلوں میں وزراء کے بیانات موجود ہیں۔ اس مقدمے نے ایک بار پھر نوازشریف کو گہری خندق کے کنارے پہنچادیا۔ مگر کابینہ کے وزراء کو پھر بھی احساس نہیں ہوا۔ ان وزراء نے وزیر اعظم کے گھر سے ان کی بیٹی اور داماد کو ساتھ ملا کر ڈان لیکس والی حماقت کرڈالی۔ یہ آخری حماقت تھی جس کا خمیازہ سابق وزیر اعظم کو بھگتنا پڑا ۔ مسلسل بُھگت رہا ہے۔ مزید بھگتنے والا ہے۔ اس واقعے کا آنے والے سیاسی منظر نامے پر خوش گوار اثر ہوگا۔ اچھی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) پر ایک شخص کی اجارہ داری کا تاثر زائل ہوجائے گا اور یہ جماعت معروف معنوں میں جمہوری سیاسی پارٹی بن کر دکھائیگی۔ آنے والے دنوں میں اس پارٹی کو ثابت کرنا ہوگا کہ دوسری اور تیسری سطح کی قیادت موجود ہے فعال بھی ہے۔ پارٹی کو سنبھالنے کے قابل بھی ہے۔ اس کا دوسرا خوشگوار اثر یہ ہوا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اب اشرافیہ کے حلقے سے نکل کر عوامی حلقوں میں داخل ہوچکی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کا تاثر عوامی سطح پر اجاگر ہوا ہے۔ پنجاب کا عام ووٹر ، دہقان ، ہاری ، تاجر اور مزدور اس بات کا قائل ہوا ہے کہ سابق وزیر اعظم کو اسٹبلشمنٹ نے سزادی ہے۔ پہلے عوامی سطح پر یہ بات ووٹروں کو معلوم نہیں تھی اور ووٹروں کے علم میں یہ بات بھی نہیں تھی کہ مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے کا کیا مطلب ہے؟ اب مسلم لیگ (ن) عوامی سطح پر ایک جمہوری پارٹی بن کر ابھرنے کے مرحلے میں پہنچ گئی ہے۔ 2018ء میں اس کی کارکردگی کسی ایک فرد کی مرہون منّت نہیں ہوگی بلکہ اسٹبلشمنٹ کے خلاف پارٹی کے اصولی موقف کی تائید ہوگی۔ بھٹو کو اس کی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے امریکی حکومت نے راستے سے ہٹا یا تھا۔نواز شریف کو سی پیک (CPEC)کی وجہ سے قدرتی طور پر یہ موقع ملا ہے کہ وہ پینٹا گان اور وائٹ ہاؤ س کے لئے خطرہ بن گیا۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی نئی قیادت نے CPECکے حوالے سے لچک کا مظاہرہ کیا تو راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہوجائینگی۔ بقول علامہ اقبال ؒ
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے