ایٹا اور این ٹی ایس کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جو میرٹ اور شفافیت کی دعویدار حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے
خیبرپختونخوا میں پروفیشنل کالجز میں داخلے جبکہ سرکاری آسامیوں پر بھرتی کیلئے لیے جانے والے امتحانات کا معیار ہر گزرتے دن کے ساتھ گراوٹ کا شکار ہے جس کی وجہ سے اس مقصد کیلئے قائم اداروں ایٹا اور این ٹی ایس کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جو میرٹ اور شفافیت کی دعویدار حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ان امتحانات کا تجربہ رکھنے والے امیدواروں کے مطابق ان اداروں نے کاروباری کمپنیوں کی صورت اختیار کر رکھی ہے کیونکہ فیسوں کے نام پر کروڑوں روپے بٹورنے کے باوجود معیار کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ خیال رہے کہ تین روز قبل بھی سول سیکرٹریٹ پشاور کی 120 خالی آسامیوں کیلئے منعقدہ ٹیسٹ میں پرچہ تاخیر سے ملنے پر بعض امیدواروں نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔مظاہرین نے اس موقع پر الزام عائد کیا کہ مقررہ وقت سے بیس منٹ قبل ہی زبردستی ان سے پرچہ لیا گیا جبکہ عملے میں سے بعض ممتحنین بعض امیدواروں کو پرزے بھی فراہم کر رہے تھے۔اس حوالے سے اعجاز نے ٹی این این کو بتایا کہ ان آسامیوں کیلئے 18 ہزار امیدواروں نے درخواستیں اور ساتھ میں پانچ، پانچ سو روپے جمع کرائے تھے لیکن اس کے باوجود امتحانی حال میں سہولت نام کی کوئی چیز نہیں تھی بلکہ حبس و گرمی میں انہیں بٹھایا گیا۔دوسری جانب ایٹا حکام کا ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پرچہ عین وقت پر دیا اور وقت پر ہی لیا گیا تھا لیکن احتجاجی امیدوار وہی ہیں جن کی تیاری نہ ہونے کے باعث پرچہ جن کا خراب ہوا تھا۔اسی طرح گزشتہ ماہ این ٹی ایس کے تحت پی ایسٹی کی 18 ہزار آسامیوں کیلئے ٹیسٹ بھی پرچہ آؤٹ ہونے کی وجہ سے مننسوخ کر دیا گیا تھا۔امتحان میں حصہ لینے والے 17 لاکھ امیدواروں کی جانب سے وقت اور محنت کے ضیاع اور ناقص انتظامات کے الزامات عائد کیے گئے اور ادارے پر خوب تنقید کی گئی۔اس حوالے سے پشاور سے تعلق رکھنے والے خورشید نامی ایک امیدوار کا کہنا ہے کہ پرچہ کے آؤٹ ہونے اور بازار میں فروخت بارے سن کر انہیں بہت دکھ ہوا۔خورشید بھی ٹیسٹ کیلئے کیے گئے انتظامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے الزا عائد کرتے ہیں کہ پرچہ وقت پر دیا گیا نہ ہی بیٹھنے کیلئے مناسب جگہ دی گئی تھی۔پرچہ آؤٹ ہونے اور اس کے نتیجے میں امتحان کی منسوخی کے خلاف بعدازاں کرک، بنوں، بٹگرام اور بونیر سمیت صوبہ بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے جہاں امیدواروں نے این ٹی ایس کیخلاف کارروائی اور اس طرح کے اداروں پر تکیہ نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔مظاہروں کے بعد صوبائی وزیرتعلیم عاطف خان نے ادارے سے ذمہ داروں کے تعین اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ ادارے کو تب تک کوئی بھی ذمہ داری نہیں سونپی جائے گی۔حکومتی دباؤ کے نتیجے میں بعدازاں چار ملازمین دھر لیے گئے اور ان کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا۔واضح رہے کہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) نامی نجی ادارہ 2002 میں جبکہ ایجوکیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایوالویشن ایجنسی (ایٹا) نامی ادارہ 1998 میں صوبائی حکومت نے قائم کیا تھا۔تاہم پروفیشنل کالجز میں داخلے اور سرکاری بھرتیوں کیلئے امتحانات میں شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنانے کی غرض سے قائم ان اداروں کی کارکردگی نہ صرف ایک سوالیہ نشان ہے بلکہ ان اداروں کی ساکھ ہی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔