وحانی خواب۔۔۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
طاقت ‘شہرت ‘دولت اور اقتدار جب نشہ بن کر گندم کھا نے والے انسان کی رگوں میں دوڑناشروع کرتا ہے توہواکا یہ جھونکا انسان کوفرعونیت میں مبتلا کرنا شروع کردیتا ہے یہی نشہ ہندوؤں کے راجہ پر تھوی راج کو بھی لگ چکاتھا‘ غزنی کے سپہ سالار شہاب الدین غوری کو شکست کیا دی ابلنا شروع کر دیا ‘اقتدار کے نشے نے اسے اندھاکر دیا ‘مرحومہ ماں نے جو نصیحت کی تھی کہ ایک مردِ درویش یہاں آئے گاتو اُس سے لڑنے سے گریز کر نا وہ غیر معمو لی انسان ہو گا جس کے ساتھ غیر مر ئی قوتیں بھی ہو نگیں اُس سے چھیڑ خانی نہ کر نا لیکن پر تھوی راج طاقت اوراقتدار کے نشے میں پے در پے اُس درویش باکمال کو تنگ کر رہا تھا ‘طا قت کے نشے میں جب ہندو راجہ نے درویش کے قریبی ساتھیوں پر ظلم و ستم شروع کیا تو حضرت خواجہ جی ؒ کاپیمانہ صبر چھلک پڑا‘ رنگِ جلال آنکھوں میں لہرایاحالت جذب میں فرمایامیں نے پرتھوی راج کو زندہ پکڑ کرلشکراسلام کے حوالے کیا۔یہ فقرہ جب پرتھوی راج کے کانوں تک پہنچا تو بے ہنگم قہقہوں کے ساتھ دھا ڑیں مار تا ہوابولاجس فقیر کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ‘پہننے کو لباس نہیں ‘وہ فخر راجپوت کو زندہ گرفتار کر ے گا ‘مجھے گرفتار کر نے کے لیے لشکر آسمان سے اُترے گا زمین پر تو کسی میں ہمت نہیں کہ میری طرف آنکھ اُٹھاکربھی دیکھ سکے ‘مسلمانوں کوشہاب الدین غو ری کی شکست یادہوگی جب وہ ذلیل و رسواہو کر میدان جنگ سے بھا گا تھا ‘ وہ ابھی تک اپنے زخم چاٹ رہا ہو گا اور دوبارہ کبھی ہندوستان آنے کی جرات نہیں کر ے گا لیکن پیکر غرور راجہ درویش کے مقام سے ناواقف تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ حالتِ جذب میں نکلے ہوئے الفاظ لو ح محفوظ پر نقش ہو چکے ہیں ‘اجمیر میں پر تھوی راج کی فرعونیت محو رقص تھی جبکہ دور غزنی میں شہاب الدین غو ری اپنے خو ن آلودہ لباس کو حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا جب اُسے پر تھوی راج کے ہا تھوں شکست ہو ئی تھی اور وہ میدان جنگ سے زخمی حا لت میں دوڑا تھا اُس دن سے اُس نے سکون کا ایک لمحہ بھی نہیں گزارا تھا چند مہینوں میں اُس کے جسمانی زخم تو مندمل ہو گئے لیکن شکست کا جو خنجر اُس کی روح میں اُتر چکاتھااُس کی تکلیف کم ہونے کی بجا ئے ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی ‘شکست کے بعد بھی اُس نے جنگی لبا س نہیں اتارا تھااور قسم کھائی تھی کہ جب تک پر تھوی راج کو شکست نہیں دوں گا اِس لباس کو نہیں اتاروں گا لیکن وہ جب بھی جنگ کا ارادہ کر تاتو وزیر مشیر سختی سے روکتے ‘پر تھوی راج مسلمان درویش کا مذاق اڑارہا تھاٹھیک اسی وقت شہاب الدین غوری خواب دیکھتاہے کہ ایک نورانی محفل سجی ہوئی ہے ‘چاروں طرف نورکے فوارے پھوٹ رہے ہو تے ہیں اِ س محفل میں انسانوں اور خدام کا ہجوم ہے ‘ سامنے ہیرے جواہرات سے جڑاہواتخت نظرآتاہے جس پرپیکرنورایک روشن چہرے والے بزرگ جلو ہ افروز ہیں جن کے سراپے سے رنگ و نور کاآبشار ابلتا نظرآتا ہے ‘بزرگ کے جلال کایہ عالم ہوتاہے کہ حاضرین مجلس احترام سے نظریں جھکا ئے کھڑے نظر آتے ہیں ‘غوری حیرت زدہ اِس منظر کو دیکھ رہا ہو تا ہے کہ اچانک تخت کے پاس سے ایک خا دم آگے بڑھتا ہے اور غوری کاہا تھ پکڑکراُسے تخت کے قریب نورانی بزرگ کے روبروکھڑاکردیتاہے اور کہتاہے شہنشاہ شہاب الدین غوری حاضرہے ‘روشن بزرگ محبت آمیز تبسم سے غوری کی طرف دیکھ کر فرماتے ہیں حق تعالی نے تجھے کا فروں پر فتح دی اور ہندوستان کی با دشاہت تجھے بخش دی ‘بزرگ کا شیریں لہجہ اور مٹھاس بھرا جلال غو ری کے ظا ہر و با طن کو سرور بخشتاہے کہ اچانک غو ری کی آنکھ کھل گئی ۔ پر اسرار اور خوبصورت خواب نے غو ری کی نیند حرام کر دی وہ ساری رات جاگتا رہا صبح دربار لگا تے ہی مشیروں وزیروں سے اپنے رات کے خوا ب کاذکرکیاتو اہل دربارنے خواب کی تسلی بخش تعبیرنہ کی بلکہ ادھورے اور غیر تسلی بخش جواب دئیے اب غوری نے دانشوروں سے خواب کی تعبیرپو چھی تو انہوں نے کہا کیونکہ آپ سال پہلے شکست کھا چکے ہیں اِس لیے دن رات آپ شکست کا بدلہ اور فتح حا صل کر نا چاہتے ہیں اِس فتح کے لیے آپ دن رات مختلف منصوبے بنا تے ہیں آپ کا ذہن دن رات انہیں خیالوں میں گم رہتا ہے اِس لیے آپ کو ایسا خوا ب آیا ہے یہ آپ کے خیالوں کا نتیجہ ہے اِس خواب کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں ۔ غو ری اُن کا جواب سن کر مایوس ہوا اُس پر اداسی اور غم کے سائے مزید گہرے ہو گئے لیکن چند دن بعد ہی وہ روشن چہرے والے بزرگ دوبارہ غو ری کے خوا ب میں پھر نظر آتے ہیں اور کہا اے فرزند مایوسی اسلام میں کفر ہے جلدی کفر سے نکلواِس بار بزرگ کے چہرے پر نا راضگی کا بھی رنگ تھا کہ تمہیں پہلے بھی کہا گیا تھا لیکن تم نے اُس خوا ب کو حقیقت کی بجا ئے وہم اورخیال سمجھ کر نظراندازکر دیابزرگ کی بات نہ مان کر بے ادبی کی ہے ۔ اِس خواب کا ذکر غو ری نے اپنے چند قریبی دوستوں سے کیا لیکن وہ بھی کو ئی تعبیرنہ ڈھونڈ سکے لیکن ایک بات طے ہو گئی کہ اِس خواب کا تعلق آنے والے کسی بڑے واقعہ سے ہے یہ خوا ب نظر انداز کیا جا نے والا نہیں ہے اِس کے یقیناًمعنی ہیں جن پر غور کر نے کی ضرورت ہے اب غو ری نے فیصلہ کیا کہ کسی ایسے بندے کو تلاش کیاجا ئے جو خوابوں کی تعبیر جانتا ہو جو اِس خوا ب کا رازبتا سکے اب خوابوں کی تعبیر کرنے والے کی تلاش شروع کر دی گئی پھر ایسے بندے کا سراغ مل گیاجوغوری کے نواح میں دنیا سے کٹ کر عبا دت الٰہی میں مصروف تھا ‘غو ری خو د چل کر اُس بزرگ کے پاس گیااورادب سے اپنے خواب بیان کئے بزرگ قوت مکا شفہ کے مالک تھے خواب سن کربولے یہ بہت عظیم فتح کا خواب ہے تم خوش قسمت ہو کہ خدا نے اِس کام کے لیے تمہیں چنا ہے تمہا ری ملاقات عنقریب نسل انسانی کے بہت بڑے بزرگ سے ہونے والی ہے ایسا بزرگ جو کرہ ارض پر آفتاب کی مانند طلو ع ہو چکا ہے لاکھوں آنکھیں اورصدیاں اِس بزرگ کا دیدار کئے بغیر بجھ گئیں ‘کتنے لو گ مٹی کا ڈھیر بن گئے خو ش قسمت ہو نگے وہ لو گ جن کواِس عظیم بزرگ کا دیدار ہو گاتم بھی اُن خو ش قسمت انسانوں میں شامل ہو گے۔ یہ بزرگ اشارہ خدا کے تحت تمہارے خواب میں آکر تمہیں عظیم فتح کی بشارت دے گئے ہیں ‘ساتھ ہی بزرگ نے غوری کے اندیشوں کا بھی بتایا کہ تم قلت فوج پر خو ف زدہ ہو جبکہ جذبہ ایمانی کے سامنے تعداد معانی نہیں رکھتی تم تعداد پر نہ جاؤ خداکی مددکایقین رکھو۔اِس خواب کو خیال اوروہم سمجھ کر نظر انداز نہ کرو ‘ہندوستان پر حملے اور عظیم فتح کی تیا ری کر و بزرگ کی باتوں سے غو ری کی مرد ہ رگوں میں آ تش بھرا خو ن گردش کر نے لگا‘ بزرگ سے دعائیں لے کر اپنی بکھری فوج کو اکٹھا کرنا شروع کیا فوجیوں کو منظم کیا بھر پو ری تیا ری شروع کی ‘جذبہ اسلام اور جہاد کی فضیلت پر روشنی ڈالی ‘ اپنی کمزوریوں پر غور کر کے ان کو دورکیا پھر غو ری ایک لا کھ سات ہزار سپا ہیوں پر مشتمل لشکر کے ساتھ غزنی سے ہندوستان روانہ ہوا ‘غو ری ایک طاقت ور راجہ پرتھوی راج کے مقا بلے پر جا رہا تھا جس کی فوج سات لاکھ طاقت ور راجپوتوں پر مشتمل تھی اور جو ایک سال پہلے شہاب الدین غو ری کو شکست دے چکا تھالیکن اِس بار شہاب الدین غو ری تا ریخ انسانی کے عظیم ترین بزرگ کی دعاؤں کے سائے تلے بت پرستوں کی سر زین کی طرف بڑھ رہا تھا ۔
جہتی کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے ڈرائیور برادری کی خدمت کرتے رہیں گے۔ حاجی غلام محی الدین نے اسفندیار خان اور صابر احمد صابر کے درمیان اختلافات ختم ہونے اور عدالت میں راضی نامہ کے ذریعے کیس واپس لے کر آپس میں شیر وشکر ہونے پر دونوں کے جذبات کو سراہا۔