جشنِ قاقلشٹ کا تاریخی پس منظر۔۔۔۔۔۔ تحریر: سعادت حسین مخفیؔ
جشنِ قاقلشٹ میں اِمسال چترال کی ادبی تنظیمات کے مہذب اور اصولی بائیکاٹ اور اس کے تناظر میں پیش آمدہ خدشات، تفکّرات اور نظریات کا کُلی جائزہ لینے کے بعد اس امر کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ جشنِ قاقلشٹ کا تاریخی آئینہ اُن تمام لوگوں کو دکھایا جا سکے جن میں بعض اس تاریخ سے بے خبر، لیکن اپنی لاعلمی میں بے ضرر بھی ہیں۔ بعض کا تعلّق ہر ایک رائے کے ساتھ متفق اور ہر آراء کے ہاں میں ہاں ملانے والے، پھر بھی بے ضرر۔ اُن میں ایک اور طبقہ وہ بھی ہے جو اپنے آپ کو دانشور، قومی ثقافت کے امین اور زبان و ادب کے رکھوالے کے طور پر پیش کرنے کی لٹھ بردار کوشش کرتے ہوئے حقیقت سے ناآشنا اپنے قلم کو بے مہار اور اپنی زبان کو بے لگام کرتے ہوئے مسرّت محسوس کرتے ہیں۔ اُن میں بعض ایسے عناصر بھی ہیں جو ضلعی انتظامیہ کو صحیح آئینہ دکھانے میں اپنی ذاتی یا ملازمتی منفعتوں پر قومی امانت کو قربان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے سب کو حقیقت سے آگاہ کرنا ناگزیر ہوگیا۔
جشنِ قاقلشٹ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ آٹھویں صدی کی بات ہے جب بہمن کوہستانی چترال کا فرمانروا تھا، اُس زمانے میں موسمِ بہار میں جب قاقلشٹ اپنی چند روزہ حسن و رعنائی کے عروج پر ہوتا تو بہمنِ کوہستانی کی سربراہی میں جشنِ قاقلشٹ کا انصرام ہوتا تھا، جس میں چوگان، رسّہ کشی، کُشتی اور نیزہ بازی وغیرہ کے مقابلے ہوتے جو کہ اُس زمانے میں تفریحِ طبع کے ساتھ ساتھ جنگی مشقیں بھی ہوا کرتی تھیں۔
بہمنِ کوہستانی نے قاقلشٹ کو مستقل سیراب کرنے کی غرض سے اُس زمانے میں بانگ گول (وادیٔ یارخون) سے ایک آبپاشی کا نہر بھی بنوایا تھا۔ شنید ہے کہ اس پانی سے قاقلشٹ کے آخری سرے، جسے آجکل “مداکیچیان شال” سے موسوم کیا جاتا ہے، پر ایک پن چکّی بھی بنوائی گئی تھی۔
بہمن کی حکومت کے چار سو سال بعد بارھویں صدی میں جب موڑکھو اور مضافات پر سُوملک کی حکمرانی قائم ہوئی اُس وقت بھی جشنِ قاقلشٹ منعقد ہوتا رہا۔ اُس زمانے میں سوملک نے خاندان لشٹ (موجودہ ڈگری کالج بونی) میں ایک جولانی (پولو گراؤنڈ) بھی بنوائی، جس میں مستقل طور پر چوگان بازی کا مقابلہ ہوتا تھا۔ زمانے کے تغیّر و تبدّل کے ساتھ آٹھویں تا بارہویں اور سوملک تا شاہ امان الملک کے زمانے تک اس جشن کو منایا جاتا رہا یا نہیں؟ اگر منایا جاتا رہا تو کس انداز سے؟ اس کا سند و روایات یا تاریخ میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
تا ہم اُس کے بعد چترال کے مشہور فرمانروا شاہ امان الملک کے زمانے میں جشنِ قاقلشٹ شاہی سرپرستی میں منعقد ہوتا رہا اور “شوڑیریو اِستورغاڑ” کا نام آج بھی زبانِ زدِ خاص و عام ہے۔
پھر اُن کے پوتے مرحوم و مغفور حدی الملک گورنر آف موڑکھو کے زمانے میں جشنِ قاقلشٹ کو خاص اہتمام و انصرام کے ساتھ ہر سال باقاعدگی سے منایا جاتا رہا ہے۔ اس کے لیے تاریخ کا اعلان گورنر صاحب کے حکم پر کروایا جاتا اور مقررہ تاریخ کی صبح بونی، تورکھو، موڑکھو اور مضافات کے لوگ جوق در جوق میدانِ قاقلشٹ پہنچنا شروع ہو جاتے۔ گورنر کی آمد اور افتتاح کے ساتھ مختلف پروگرامات کا آغاز ہوتا، جن میں چوگان (پولو)، رسّہ کشی، نیزہ بازی، چاند ماری اور کُشتی وغیرہ کے مقابلوں میں کرتب دکھائے جاتے ، اور ڈھول کی تھاپ و سُر میں رقص کی محفل بھی جمتی اور مختلف آہنگوں کے ماہرین مختلف اور مخصوص انداز میں رقصاں بھی ہوتے۔ یوں شام تک لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف واپس چلے جاتے۔ یہ پروگرام سال میں ایک دن کے لیے مخصوص تھا، جو کہ شب گزاری کے بغیر اختتام پذیر ہوتا۔
چترال میں شاہی حکمرانی کے بعد بھی کسی سرکاری سرپرستی کے بغیر جشنِ قاقلشٹ اُسی طرح جاری رہا۔ موڑکھو اور بونی کے لوگ اہتمام سے اس جشن کو مناتے رہے۔ اس جشن میں بوڈی دیک (گلی ڈنڈا، موجودہ کرکٹ کی پرانی قسم) پڑینجو غاڑ یا غاروچون غاڑ (پیادہ چوگان بازی) اور ناچ گانے کے پروگرامات کا باقاعدہ اہتمام ہوتا۔ خواتین پکنِک منانے کی غرض سے قاقلشٹ پہنچ جاتیں اور ہوپ گیے کا مقابلہ کرتیں، اور مقامی بانسری بجا کر (بیڑو باشئے) دِلوں کو گرماتیں۔ اسی طرح قاقلشٹ کی چندروزہ حسنِ دلربا اور ہریالی کے اختتام کے ساتھ یہ پروگرامات بھی اختتام پذیر ہوتے۔
یہ سلسلہ ۲۰۰۵ء تک مختلف انداز میں جاری رہا۔ ۲۰۰۵ء میں ادبی تنظیموں نے اس جشن کو باقاعدہ طریقے سے منانے کا اہتمام کیا، اور مقامی سوسائیٹیوں کی مدد سے اس کا باقاعدہ انعقاد و اہتمام خوش اسلوبی و دلچسپی اور دلکشی سے ہوتا رہا۔اُن منتظمین و محرّکین میں ذاکر محمد زخمیؔ کا کردار سب سے اہم اور اوّلین ہے، کیونکہ اس نے بکھری ہوئی سوچوں کو یکجا کیا، اُن سوچوں کو عملی جامہ پہنانے اور عملی شکل دینے کے لیے اپنے قریبی دوستوں یعنی فضل الرّحمان شاہدؔ، راقم الحروف، ظفراللہ پروازؔ، حفیظ اللہ امینؔ، صاحب ولی آسراؔ اور ذوالفقار ذلفیؔ سے مشورہ کیا اور اس جشن کو باقاعدہ طور پر چترالی ثقافت کا امین بنانے کیلئے مذکورہ ساتھیوں اور انجمن ترقی کھوار حلقہ بونی کے تمام اراکین کی معیّت میں قاقلشٹ کے سبزہ زار کو زعفرانِ زار بنانا شروع کیا۔ اُس وقت ہمارے مہمانانِ خصوصی ڈپٹی کمشنر چترال محترم معتصم باللہ صاحب اور ڈی پی او چترال جناب سلیم مروت صاحب پروگرام میں شریک رہے ہیں۔ جن کے ہمارے لیے تعریفی و توصیفی الفاظ آج بھی صدائے بازگشت بن کر قاقلشٹ کے میدان میں سماعتوں سے ٹکرا رہی ہیں۔
اُس وقت ہم بے بغیر کسی لالچ، غرض یا مالی منفعت کے اپنی جیبیں کاٹ کر اور اپنے اخراجات سے بچا کر اس جشن کو باقاعدگی کا ہار پہنایا، کوئی ضلعی انتظامیہ یا ضلعی حکومت کسی قسم کی معاونت (مالی) کا دعوی نہیں کر سکتی۔
ہمار کام اور مقصد چترال کی ثقافت اور زبان کی خدمت تھا، زبان میں پرانے اور متروک یا قریب الترک الفاظ اور گانوں کی حفاظت و یکجائیت اور ثقافت میں پرانی، متروک یا قریب الترک اُن تمام چیزوں کی تلاش و یکجائیت اور اُن کی حفاظت شامل ہے، جس میں کھانوں سے لیکر قدیم لباس اور شکار و کھیل سب شامل ہیں، اور جن میں گانے اور رقص بھی شامل ہیں۔
اب چونکہ اس جشن کو سرکاری یا حکومتی سرپرستی حاصل ہو چکی ہے یا حاصل کی گئی ہے، اور شنید ہے کہ اِس مد میں بہت خطیر رقم مختص ہو رہی ہے۔ مقامی کلچر کو فروغ دینے اور پروموٹ کرنے کے لیے خاصی رقم بھی قومی خزانے سے خرچ ہوچکی ہے، لیکن یہ بات ہمارے علم میں نہیں ہے کہ آیا یہ رقم ‘مقامی ثقافت’ کی ترویج و ترقی کیلئے تھی یا صوبائی اور قومی ثقافت کیلئے؟ اس کا جواب ہمیں چاہئے اور اس کی جواب طلبی کا حق (قانونی اور اخلاقی طریقے سے) ہم محفوظ رکھتے ہیں۔
کیونکہ:
اِس سال جشنِ قاقلشٹ کے موقع پر مقامی ثقافت کے نام سے چترالی ثقافت کا جو مذاق اڑایا گیا، اُسے نہ ادبی و ثقافتی تنظیمات معاف کر پائیں گی اور نہ ہی چترالی قوم معاف کر سکے گی۔
گفتہ بالا خدشات و تحفّظات کے تناظر میں چترال کی تمام ادبی و ثقافتی تنظیموں نے جشنِ قاقلشٹ کے اُصولی بائیکاٹ کا جب اعلان کیا تو ڈپٹی کمشنر صاحب چترال نے ملاقات طلب کی۔ ہم دروش اور بونی سے چترال مرکز پہنچ گئے۔ مئیر تنظیم کے دفتر میں تمام تنظیمات کے عہدیداروں کی میٹنگ ہوئی۔ ہم جملہ تنظیمات کے ذمہ داراں اپنے قلب و ذہن میں نرم گوشہ لیکر اور پروگرام میں شرکت کرکے کامیاب بنانے کے تصوّر سے ڈپٹی کمشنر صاحب سے ملاقات کیلئے روانہ ہوئے۔ چونکہ پروٹوکول کے مطابق ہمیں جناب سید مظہر علی شاہ صاحب سٹلمنٹ آفیسر(بطورِ ثالث) کی وساطت سے ڈی سی صاحب سے ملنا تھا، جب مظہر صاحب کے دفترمیں اس سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس پروگرام کے ہولی سولی ذمہ دار آفیسر اے ڈی سی چترال جناب منہاس الدّین صاحب ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ مظہر صاحب کی پُر خلوص ٹیلیفونک اصرار پر بھی منہاس صاحب نے صرف دس منٹ کیلئے بھی ہم سے ملنے کو اپنی کسرِ شان سمجھا۔ جس کی وجہ سے ڈپٹی کمشنر صاحب کیساتھ ہماری ملاقات نہ ہو سکی۔
واضح رہے، ہمارے احتجاج کیلئے جو لائحہ عمل ترتیب دیا گیا تھا، ہم نے اُس ارادے کو صرف اور صرف مظہر علیشاہ صاحب کی خاطر اس لیے ترک کیا کیونکہ انہوں نے اپنے دفتر میں ہماری بہت زیادہ عزت افزائی کی اور اُس عزت افزائی کا بدلہ ہم نے اس کی عزت افزائی کے طور پر دیدیا، اور صرف مہذب بائیکاٹ تک محدود رکھا۔ اگر مظہر کی طرح منہاس کا رویّہ بھی اخلاقی اور شریفانہ (یا کم از کم پیشہ وارانہ) ہوتا تو جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہم دل و دماغ میں نرم گوشہ رکھ کر گئے تھے۔ لیکن صد حیف! اُس کے رویّے نے ہمیں بائیکاٹ پر قائم رہنے پر مجبور کیا۔
سب سے آخر میں شعراء و ادبا کے بارے میں گزارشات ،کہ اگرچہ ہم پھٹے ہوئے تلوے والے جوتے پاؤں کی زینت بناتے ہیں، اگرچہ بغیر استری کے کپڑے زیبِ تن کرنا ہمارا شیوہ ہے، اور اگرچہ بغیر تیل و کنگھی کے ننگے سر پھرنا ہمارا طریقہ ہے۔ تاہم ہمارا نعرہ ظاہری زیب و زینت والوں سے مختلف ہے۔ بقولِ شاعر
خودی کی شان تو تب ہے کہ بے مانگے ملے جنت
ملے تو التجا کرکے وہ جنت ہم نہیں لیں گے