آنے والے الیکشن کے لئے چترال میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اُمیدوارٹکٹوں کے حصول کے لئے تگ ودوشروع ،پیپلزپارٹی کی ٹکٹوں کیلئے کئی اُمیدوارقسمت آزمائی
چترال(رپورٹ شاہ مرادبیگ)آنے والے الیکشن کے لئے چترال میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اُمیدوارٹکٹوں کے حصول کے لئے تگ ودوشروع کر رکھے ہیں۔پیپلزپارٹی کی ٹکٹوں کیلئے کئی اُمیدوارقسمت آزمائی کررہے ہیں۔چترال میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست ختم کئے جانے کے بعدقومی اورصوبائی کے ایک ایک سیٹ ہیں۔پیپلزپارٹی کے ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے عرصہ پہلے پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے انجینئرفضل ربی جان ،سابق اکاؤنٹینٹ جنرل شہزادہ تیمورخسرو،پی پی پی کے ضلعی جنرل سیکرٹری محمدحکیم ایڈوکیٹ جبکہ صوبائی اسمبلی کے لئے موجودہ ایم پی اے محمدسلیم خان،جے یوآئی سے پیپلزپارتی جوائن کرنے والے سابق ایم پی اے حاجی غلام محمداورڈاکٹریوسف ہارون شامل ہیں۔اگردیکھاجائے توقومی اسمبلی کے لئے تینوں میں سے انجینئرفضل ربی جان مظبوط اُمیدوارہیں،شہزادہ تیمورخسروآصف علی زرداری کے قریب بتایاجارہاہے۔اس لئے شایدوہ ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔لیکن اُن کے جینے کاامکانات بہت کم ہیں۔محمدحکیم ایڈوکیٹ 2013ء میں بھی الیکشن لڑچکے ہیں ۔لیکن اُس دفعہ بھی وہ چوتھے نمبرپرآئے تھے۔اگرشہزادہ تیمورخسروٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔توصوبائی اسمبلی کے لئے مظبوط اُمیدوارسلیم خان کوٹکٹ ملنامشکل ہوجائے گا۔کیونکہ دونوں کاتعلق ایک ہی علاقے سے ہے۔دونوں کوٹکٹ ملنے کی صورت میں اپرچترال نمائندگی سے محروم ہوجائے گا۔اوراپرچترال سے ووٹ ملنے کی اُمیدبہت کم ہوگی۔غلام محمداورڈاکٹریوسف ہارون دونوں کاتعلق اپرچترال سے ہے۔دونوں صوبائی اسمبلی کے لئے مظبوط اُمیدوارہیں۔ڈاکٹریوسف ہارون سابق ایم این اے سیدعبدالغفورشاہ مرحوم کابھتیجاہے۔اورپیپلزپارٹی کابنیادی رکن ہے سابق ایم این اے سیدعبدالغفورشاہ مرحوم 1989میں پی پی کے ممبرقومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے ۔اس کے بعدپی پی پی کبھی بھیایم این اے کی نشست نہیں جیت سکی ہے۔ڈاکٹر یوسف ہارون کاتعلق سیدخاندان سے ہونے کے سبب اُن کااپناووٹ بینک بھی ہے۔غلام محمدبھی سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں ۔اوراُن کابھی زاتی ووٹ بینک ہے اوراُن کامالی پوزیشن بھی ٹھیک ٹھاک ہے ۔پیپلزپارٹی اگرایک نشست اپرچترال اورایک لوئرچترال کودیتاہے تواس کی پوزیشن بہترہونے کے امکانات ہیں۔