شیر رہی سہی ساری طاقت مجتمع کر کے دھاڑا اور گرتے پڑتے NA-122 میں عزت بچا لی۔ عزت اس لیے بچا لی کیوں کہ اس حلقے میں مقابلہ صرف دو امیدواروں کے درمیان نہیں تھا۔ بلکہ شاید مکمل طور پر دو پارٹیوں کے درمیان تھا۔ اور سونے پہ سہاگہ بھی یہ ہوا کہ پوری وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی درمے سخنے مدد حاصل رہنے کے باوجود صرف تین ہزار کے فرق سے فتح نصیب ہو سکی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ فتح چاہے ایک ووٹ سے بھی ہو ہوتی فتح ہی ہے۔ اور جشن منانا بھی فتح پہ لازم ہے۔ لیکن اس حقیقت میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ نہ صرف حکمران جماعت کو NA-144 میں شکست ہوئی ہے بلکہ ایاز صادق صاحب کے حلقے میں ایک صوبائی نشست سے بھی ہاتھ دھونے پڑ گئے ہیں۔
حیران کن طور پر دونوں مدمقابل جماعتوں نے اپنی توجہ ایک ہی حلقے پر مرکوز رکھی جب کہ الیکشن تو NA-144 میں بھی ہو رہا تھا جو لاہور سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔ لیکن وہاں پر نہ تو تحریک انصاف متحرک نظر آئی نہ ہی پاکستان مسلم لیگ نواز۔ اور اس کا گلہ اس حلقے کے امیدوار بھی ڈھکے چھپے لفظوں میں کر رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا تو شاید یہاں ذکر ہی اس لیے نہیں بنتا کہ انتخابات سے چند دن قبل تک یہی صورت حال واضح نہیں تھی کہ آیا پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات لڑے گی بھی یا نہیں۔ بیرسٹر عامر حسین جو کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے انہیں نہ تو پیپلز پارٹی پنجاب کی تنظیمی سطح پر حمایت حاصل تھی نہ ہی لاہور کی سطح پر۔ اور یہی وجہ بنی ان کی بدترین شکست کی ۔ پاکستان تحریک انصاف کے NA-144 سے امیدوار اشرف سوہنا کا شکوہ بھی اپنی قیادت سے بجاء ہے کہ ان کی قیادت کا سارا زور لاہور میں رہا جو ان کی شکست کا سبب بنا ۔ اس شکوے میں سچائی بھی ہے۔ اشرف سوہنا جو حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اس شکست کے بعد ان کا سیاسی قد مزید کم ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف کومستقبل میں ٹکٹوں کی بندر بانٹ میں بھی اب کچھ عقل سے کام لینا ہو گا۔ اشرف سوہنا بے شک پیپلز پارٹی چھوڑ کر شامل ہوئے تھے لیکن ایک شخص اگر اپنے بل بوتے پر چند ہزار ووٹ بھی نہ حاصل کر پائے تو پھر یقیناًنظریاتی کارکن یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ پارٹی انہیں ہی کیوں نظر انداز کر رہی ہے۔
بظاہر پاکستان تحریک انصاف کو لاہور میں شکست ہو گئی ہے۔ لیکن اگر اس انتخاب کے دوررس نتائج پر غور کیا جائے تو تحریک انصاف اپنا مقام قائم رکھے ہوئے ہے۔ لاہور جو ہمیشہ سے ن لیگ کا قلعہ رہا ہے۔ اور اس قلعے میں جو دراڑیں پاکستان تحریک انصاف ڈال رہی ہے اگر اس کی تعمیر نو کی طرف حکمران جماعت نے توجہ نہ دی تو بہت جلد مکمل قلعہ زمیں بوس ہو سکتا ہے۔ اور یہ ایک صائب مشورہ ہے بناء کسی ڈھکی چھپی یا ظاہری پرخاش کے۔
NA-144 کے ساتھ منسلک دو صوبائی نشستیں مکمل طور پر حکمران جماعت کھو چکی ہے ۔ اور حیران کن طور پر اس دفعہ کے ضمنی انتخابات میں وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے قریبی عزیز محسن لطیف حصہ لے رہے تھے۔ لیکن وہ کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکے اور پاکستان تحریک انصاف کے شعیب صدیقی یہ نشست لے اُڑے ۔ اسی حلقے میں موجود صوبائی نشست PP-148 حکمران جماعت عام انتخابات میں پہلے ہی کھو چکی ہے۔ تو ایسے حالات میں کیا واقعی جشن منانا بنتا ہے یا یہ سوچنا زیادہ اہم ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر نہ صرف دونوں صوبائی نشستیں ہاتھ سے گئیں بلکہ اوکاڑہ کی قومی اسمبلی کی نشست سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔
یقیناًلاہور کی نشست اہم ضرور تھی کیوں کہ اسپیکر شپ کا سوال تھا۔ لیکن اس کے ساتھ یقیناًباقی نشستیں بھی یقیناًاہم ہونی چاہیے تھی۔ اور بھولے عوام اس ایک نشست کی فتح پہ تو شیر کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن دو نشستوں کی شکست کو وہ نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ ان کی عقل پہ پردہ پڑا ہوا ہے۔کہ وہ بہت کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنے ہوئے ہیں۔ علیم خان جن کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ ان کا بطور انتخابی امیدوار انتخاب درست نہیں ہے۔ 70 ہزار سے زائد ووٹ لے کر انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان میں دم خم یقیناًباقی ہے۔ ان کی شکست کی وجوہات میں تین سے چار ہزار ووٹ یقیناًشامل ہیں لیکن ان کو بنیادی طور پر شکست خود تحریک انصاف کی وجہ سے ہوئی۔ پارٹی کے اندرونی اختلافات ان کی شکست کی بنیادی وجہ بنے۔ پوری صوبائی و وفاقی مشینری کا اس حلقے میں موجود رہنا بھی کسی نہ کسی سطح پر ان کی شکست کا بنیادی سبب رہا۔ اپوزیشن جماعت کے امیدوار ہونے کے سبب ان کو یقیناًوہ سہولیات حاصل نہیں رہی ہوں گی جو ایاز صادق کو حاصل تھین۔ میاں محمد نواز شریف صاحب کو اس حقیقت کا ادراک بھی کرنا ہو گاان کے راہنماؤں کی فوج ظفر موج ان کی محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔ حکمران جماعت کے ایم این اے محسن رانجھا صاحب جو سرگودہا سے منتخب ہوئے ہیں ان سے جب ایک خاتون صحافی نے پوچھا کہ جناب ابھی رزلٹ آیا نہیں مکمل لیکن کیا میں آپ کو مبارکباد دے دوں؟ تو ان کا جواب نہایت معصومانہ سا تھا کہ جی بی بی آپ مبارکباد دے سکتی ہیں ہمیں تو کل سے مبارکبادیں موصول ہو رہی ہیں۔ اور ہمیں کل سے ہی نتائج کا پتا تھا۔ اب ذرا کوئی ان صاحب سے پوچھے کہ جناب یہ کوئی بہت واضح فتح تو تھی نہیں۔صرف چند ہزار کا ہی فرق تھا تو آپ کو کیسے ایک دن پہلے فتح کا پتا چل گیا۔ کہیں عام انتخابات کی طرح تو کچھ نہیں تھا؟
سیاسی پارٹیوں میں سے کسی کی ہار ہوئی اور کسی کی جیت لیکن الیکشن کمیشن ضرور اس ضمنی الیکشن میں بھی ہارا نہ تو وہ اپنے ضابطہ اخلاق پر عمل در آمد کروا سکا نہ ہی میڈیا کے لیے پیمرا سے مل کر کوئی راہنما اصول بنا سکا۔ اربوں روپے بے دریغ لٹائے گئے۔ وفاقی وزراء بلا روک ٹوک انتخابی مہم میں نظر آئے۔ اور یقیناًہر وزیر نے اپنے وزارتی اختیارات کا بھی ووٹ ڈلوانے میں استعمال کیا گیا ہو گا۔ خصوصاً وزیر ریلوے صاحب کا عمل دخل یقیناًریلوے کی آبادیوں اور ملازمین پر رہا ہو گا۔ اس مرتبہ بھی بریکنگ نیوز کی دوڑ میں میڈیا ادارے اعدادو شمار سے کھیلتے رہے۔ الیکشن کمیشن کو تمام سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کے اداروں کے ساتھ اب کوئی ایسا لائحہ عمل ضرور بنانا پڑے گا کہ اس وقت تک کسی بھی چینل پر کوئی نتیجہ نشر نہ ہو سکے جب تک ریٹرننگ افسر کا دستخط شدہ رزلٹ نہ پہنچ جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دی جائے۔
حالیہ ضمنی انتخابات جہاں حکمران جماعت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ان کے مضبوط گڑھ سے اپوزیشن نہ صرف صوبائی نشست لے اُڑی وہاں سے قومی اسمبلی کی نشست بھی چند ہزار ووٹوں کے فرق سے ہی جیت پائے اور کچھ بعید نہیں کہ اتنے کم مارجن سے فتح کے خلاف دوبارہ گنتی اور اسی طرح کے دیگر قانون حق کا بھی شاید استعمال کیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ انتخابات اپوزیشن کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہیں پیپلز پارٹی کو تو اب مسیحا کی تلاش ہے ہی تحریک انصاف کے راہنماؤں کو بھی گریباں میں دیکھنا پڑے گا۔ عمران خان صاحب کوشاید اب سوچنا ہو گا کہ ان کی زبان ووٹر کو متنفر تو نہیں کر رہی اگر ایسا ہے تو قابو پانا ہوگا۔اس کے ساتھ یہ سبق بھی ملا کہ سب کچھ پیسے سے نہیں حاصل کیا جا سکتا ووٹ مانگنے کا فن بھی آنا چاہیے۔ ایسا ہی شعیب صدیقی کی فتح کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ جنہوں نے علیم خان کی طرح دولت نہیں لٹایا گھر گھر جا کر ووٹ مانگا اور نتیجہ سامنے ہے۔