258

ترکی میں رجب طیب اردودان ایک بار صدر منتخب۔۔۔صابرمغل

ترکی میں قبل از وقت انتخابات کے تحت ترکی کی عوام نے صدر رجب طیب اردودان کو واضح اکثریت سے منتخب کر لیاجیسے ہی ترک سپریم الیکشن کمیشن نے ان کی کامیابی کا اعلان کیا تو کامیابی کی یہ خبر سنتے ہی طیب ادرودان کے حامی ملک بھر میں سڑکوں پر نکل آکر فتح کا جشن منانے لگے ،کامیابی کے بعد طیب نے کہا کہ وہ ایسے نتائج کے لئے پر عزم تھے کوئی بھی شخص انتخابی نتائج پر منفی پروپیگنڈہ نہ کرے ترکی کی ترقی کے لئے دن رات جدوجہد جاری رکھیں گے 90فیصد شرح پولنگ دنیا کے لئے ایک مثال ہے ہم نے انتخابات کے ذریعے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کیا ہیاتحاد جمہور کو ووٹ دینے والوں کا شکریہ قوم نے مجھے صدارتی ترقی کے ساتھ ملکی خدمت کے لئے چنا ہے ووٹرز انتخابی رنجشوں کو بھول جائیں،یوں طیب اردوان صدر بننے سے قبل11سال تک ترکی کے وزیر اعظم رہے پھر 12ویں صدر اس ان انتخابات کے بعد ترکی کے نہ صرف 13صدر منتخب ہوئے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ترکی میں پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام کا آغاز ہو گیا ہے،انتخابات میں رجب طیب ارودوان نے53.8فیصد ووٹ حاصل کر کے مخالفین پر برتری حاصل کی حزب اختلاف کے اہم امیدوار محرم انجنے نے غیر سرکاری نتائج کے مطابق30.1فیصد ووٹ حاصل کئے ایک اور مخالف جماعت 10فیصد ووٹ حاصل کر پائی اس صدارتی الیکشن میں کل چھ امیدواروں نے حصہ لیا تھا،طیب اردودان کی پارٹی کا نام جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ ہے،ان انتخابات میں 5کروڑ 60 شہریوں جبکہ 30لاکھ دیگر ممالک میں مقیم ترک شہریوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ساتھ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات عمل میں آئے ملک بھر میں ایک لاکھ 80ہزار بیلٹ بکس لگائے گئے سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات میں ،پولنگ کا سلسلہ ترکی کے مقامی وقت کے مطابق صبع آٹھ بجے سے5بجے شام تک جاری رہا ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ تاریخی حدوں کو چھو کر96فیصد تک جا پہنچا اس سے قبل ترکی میں یہ شرح 80سے85فیصد تک رہی،طیب اردودان کی سیاسی پارٹی کا نیشلسٹ موومنٹ پارٹی کے ساتھ تھا جسے پیپلز الائنس کا نام دیا گیاجبکہ سیاسی حریف کا اتحادنیشنل الائنس کے نام سے قائم ہوا جس میں ریپلکن پیپلز پارٹی ،دائیں بازو کی جماعت گڈ پارٹی ،ڈیمو کریٹک پارٹی پر مشتمل تھا اس کے علاوہ قبل ازیں اتخابات کرانے کے اعلان پرایک درجن سے زائد پارلیمانی ارکان نے حریف امیدوار کا ساتھ دینے کے لئے اپوزیشن میں شمولیت اختیار کر لی تھی ان کے مطابق یہ فیصلہ انہوں نے جمہوریت کے مفاد میں کیا ہے قبل از وقت انتخابات پر اپوزیشن کو امیدواروں کے چناؤ اور انتخابات کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا رہا اس کے باوجود طیب اردودان نے خدشہ ظاہر کیا تھا حزب اختلاف کے رہنماء محرم انجنے انہیں انتہائی مشکل میں ڈال سکتے ہیں محرم انجنے سے قبل آئی اے پارٹی کی بانی سربراہ میرل ایکسیز و سابق وزیر داخل بھی تھیں کو مضبوط امیدوار خیال کیا جاتا رہا مگر طیب کا اصل مقابلہ محرم انجنے سے ہواترکی میں آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے والے افراد کے لئے ضروری ہے کہ وہ عوام کے ایک لاکھ دستخط حاصل کریں،ایک سال قبل رجب طیب نے صدارتی ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم کے اختیارات ختم کر کے ترکی کے نظام کو صدارتی کر تے ہوئے تمام تر اختیارات صدر کو منتقل کر دئیے تھے سیاسی مخالفین نے اس سلسلہ میں بحث کے لئے پیش کی گئی ان 18شقوں کی شدید مخالفت کی تھی جس کے ڈرافٹ کی منظوری پارلیمانی کمیشن نے دی تھی اس کے خلاف کرد حامی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے مقید شریک رہنماء حیتن دیما وٹس نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے بھی بحث کرتے ہوئیمخالفت کی تھی،،گذشتہ سال پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کے حوالے سے ہونے والے ریفرنڈم میں طیب اردودان کو ہی کامیابی ملی تھی، انتخابات سے ایک روز قبل رجب طیب اردودان اور ان کے سیاسی حریف محرم انجنے نے اپنی انتخابی مہم کے آخری روز بڑی بڑی ریلیاں نکالیں اور دونوں نے خود کو ترکی پر حکومت کرنے کا اہل قرار دیا،محرم انجنے کی شعلہ فشانی نے حزب اختلاف میں جان پھونک دی تھی اور کہا کہ اردودان کا آمرانہ دور حکومت اپنے خاتمے پر ہے انہوں نے استنبول میں تقریباً دس لاکھ افراد کے جلسے میں مزید کہا اگر طیب کامیبا ہوتا ہے تو ترکی میں خوف کی حکومت برقرار رہے گی اور اگر ان کی جیت ہوتی ہے تو عدالتیں آزاد دو سال سے جاری ایمر جنسی کو48گھنٹے کے اندر واپس لے لیا جائے گاکیونکہ ایمرجنسی کی وجہ سے عوام کے حقوق متاثر اور حکومت پارلیمان کو نظر انداز کر رہی ہے،ریلی سے خطاب میں طیب نے کہا تھا کہ مخالفین کو عثمانی تھپڑ لگائیں گے انہوں نے اپنے سابق استاد محرم انجنے کے بارے کہا استاد ہونا الگ بات ہے اور ملک چلانادوسری بات،طبیعات اور قیادت دو مختلف چیزوں کانام ہے وہ قیادت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں وہ معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے مزید ایم بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹس لا رہے ہیں،جدید ترکی کی تاریخ میں یہ ملک کبھی اتنا منقسم نہیں رہااور نہ ہی طیب اردودان کو اس سے قبل اتنے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا،جدید ترکی کے بانی کمال اتا ترک کے بعد رجب طیب اردودان سب سے زیادہ طاقتور حکمران کے طور پر سامنے آئے ،ترکی یورشیائی ملک ہے جو جنوب مغربی ایشیا میں جزیرہ نما انطولیہ اور جنوب مشرقی یورپ کے علاقہ بلقان تک پھیلا ہوا ہے یورپ اور ایشیا کے درمیان محل وقع کے اعتبار سے اہم مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے ترکی مشرقی اور مغربی ثقافتوں کے چوراہے پر واقع ہے،15جولائی2016میں طیب اردودان کے خلاف بغاوت ہوئی اس بغاوت میں باغی فوجیوں اور عوام کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ہلاکتوں کی تعداد 265تک جا پہنچی تھی جن میں عام شہری اور پولیس اہلکا روں کے علاوہ باغی بھی شامل تھے بغاوت کی کوشش میں 2745ججوں اور2839فوجیوں کو ملوث قرار دیا گیا تھا،طیب ارودان نے الزام لگایا تھا کہ اس بغاوت کا اصل کردار فتح اللہ گولن ہے جو اس وقت امریکہ میں مقیم تھا بغاوت کے پانچ دن بعد ترکی میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی جس میں اب تک سات مرتبہ توسیع کی جا چکی ہے طیب نے اس اقدام کی وجہ سے مخالفین پر کریک ڈاؤن کیا تھا ایک لاکھ 40ہزار سرکاری اہلکاروں کو گرفتار و برطرف کیا گیا جن میں اساتذہ،جج ،فوج اور پولیس افسران شامل تھے،فتح اللہ گولن نے بغاوت کرانے کے الزام کو مشترد کر دیا تھا،ترکی میں 1960,،1980اور1991میں بھی فوج نے سول حکومتوں کا تختہ الٹا تھاان میں ایک نجم الدین اریکان کو سزائے موت بھی دی گئی،رجب طیب اردودان ماضی میں استنبول کے ناظم اور وفاقی وزیر بھی رہے،وہ عالم اسلام کے واحد رہنماء ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماء کو پھانسی دئیے جانے کا خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا،فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی بربریت پر آواز اٹھانے والوں میں بھی وہ سب سے قد آور شخصیت ہیں انہوں ہر فورم پر اسرائیلی مظالم کی مخالفت کی،پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی ہمیشہ ان کی ترجیح رہے یہی وجہ ہے کہ ان کی کامیابی پر پاکستانی حکومت اور تمام سیاسی رہنماؤں نے تہنیتی پیغام بھیجے،ان کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا،ترکی میں اب صدارتی نظام نافذ ہو چکا اور یوں یہ پہلا اسلامی ملک ہے جہاں یہ نظام رائج ہے دوسری جانب ترکی اسی نظام کی وجہ سے امریکہ جیسے ممالک کی صف میں شامل ہو چکا ہے،پاکستان کی ترکی نے ہمیشہ ہر فورم پر حمایت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام ترکی کی عوام سے بے پناہ محبت رکھتی ہے،بلا شبہ ترکی عالم اسلام میں اہم حیثیت کا حامل ملک ہے جس نے سب سے بڑھ چڑھ کر مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی نہ صرف شدید مخالفت کی بلکہ کئی عملی اقدامات بھی اٹھائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں