Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

دھڑکنوں کی زبان ….”ہمارے بچے اور ہمارے ثقافتی اقدار”….محمد جاوید حیات

ثقافت کسی بھی قوم اور مخصوص جغرافیے میں رہنے والوں کی پہچان ہوتی ہے ثقافت پھیلی ہوئی ایک ڈاگما ہے ثقافت کے زندہ اور جاندار اقدار قائم رہتے ہیں بعض دور کے ساتھ مٹتے بھی ہیں لیکن زندہ قومیں کوشش کرکے اقدار کی حفاظت کرتی ہیں ۔۔۔چترال اپنی مخصوص اور منفرد ثقافت کی وجہ سے پہچان رکھتا ہے ۔ان ثقافتی اقدار میں مخصوص لباس ،شائستہ نشست و برخواست ،مہذب طور طریقے ،نرم لہجہ شرین زبان ادب و احترام قابل رشک حد تک قابل تقلید ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے ہاتھوں مٹتے جارہے ہیں ۔اس تباہی میں والدین کا سب سے بڑا کردار ہے ۔
ہم نیم تعلیم یافتہ والدین نے سب سے پہلے لباس کی ثقافت کو رونڈ ڈالا ۔۔اپنے بچوں کو قومی لباس سے بچپن ہی سے محروم رکھتے ہیں ۔۔پینٹ شرٹ کا عادی بناتے ہیں۔جوان بچیوں تک پینٹ شرٹ پہننے لگی ہیں دوپٹے کا تصور تک ختم ہوگیا ۔۔دینی تعلیمی اداروں کے علاوہ کوئی بچی برقعے کو اپنے لباس کا حصہ نہیں سمجھتی ۔کوشش کرکے ننگا سررہتی ہےتنگ لباس میں خوش ہے ۔ساتھ ناخن بڑھانا اور تراش خراش سے اپنے آپ کو روبوٹ بنانا جس کو میک اپ کا نام دیا جاتا ہے ۔۔وہ لباس جو قومی اور علاقائی شناخت تھا خواب بن گیا ہے ۔بچے ،جوان سب چترالی لباس چھوڑچکے ہیں کوئی جوان شلوار قمیص میں نظر نہیں آتا ٹراوزر نام سے پجامہ پہن کے پھرتا ہے ۔ہیپی سٹائل ہے ۔بالوں کے لیے پراندہ پونی وغیرہ استعمال کرتا ہے چترالی ٹوپی،چترالی بنیان،چترالی مفلر،چترالی جرابین اور دستانے کوئی اسے استعمال نہیں کرتا۔اب شدید سردی میں بھی کٹ جرابیں استعمال ہوتی ہیں۔سرننگا،پینٹ
شرٹ ،کوئی جیکٹ پہنتا ہے۔۔
دوسرایلغارزبان پہ ہے اگرچہ مجموعی طور پرانگریزی نے ہمیں جھکڑلیایے ہماری قومی زبان تک بے قدرو قیمت ہے ہم انگریزی زبان کو
صلاحیت،قابلیت،معیار،تعلیم ،ذہانت اورمرتبہ قراردیتے ہیں جس کو انگریزی آۓ وہ ہمارے نزدیک سب کچھ ہے بے شک یہ موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے یہ بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے دنیاکے دوسرے ملکوں میں اس کو اسی قدراہمیت دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہی معیار کل ہے ۔ہمیں اس پہ بجا طور پرفخر ہے ۔۔ہمیں اپنی زبان کھوارکے لفظ تک نہیں آتے ہم نے رشتوں کے نام،دنوں کے نام ،القاب و اداب سب کچھ انگریزی سے مستعارلیا ہے یہ استعمال کرتے ہوۓ فخر محسوس کرتے ہیں ۔ہمارا میڈیم سکولوں میں انگریزی ہے اردو میں ہمارے بچوں کو گنتی تک نہیں آتی۔
دسرا یلغار ادب اداب پر ہے ہمارے ہاں رشتوں کے نام اور قدرتک بدل گئےہیں ہم میں کسی کا تعارف،کسی کا احترام کسی کی قدر عزت تک مفقود ہیں فاصلے بڑھ رہے ہیں بے چینیاں انتہاکو پہنچی ہوئی ہیں ایک دوسرے کو قبول کرنے کا تصورتک مٹ گیا ہے ۔نافرمانیاں،گستاخیاں،تحقیر و تذلیل تلخ لب و لہجہ ،نفرت ہمارا رویہ بن گیا ہے آج کا بچہ ان سب اداب سے نااشنا ہے ان کو یہ سمجھایا نہیں جاتا کہ یہ پھوپھو ہے ۔یہ بہن باجی ہے ۔ چچا خالو مامو مومانی ہے یہ رشتے کا بھائی ہے ان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ایسے بھی کوئی تعلق رشتے ہوتے ہیں یہی بچہ گھر سے کلاس روم پہنچتا ہے اس کو وہاں صرف شدھ بدھ پڑھایا جاتا ہے اس کو کبھی اخلاق اقدار پڑھایا نہیں جاتا یا تو استاذ کو توفیق نہیں ہوتی یااستاذ بھی اسی افراتفری کاشکار ہے
ایک بڑی تباہی یہ ہے ک بچے کے کردار کی نگرانی اور تربیت کاخیال نہیں رکھاجاتا ۔اس کی چلت پھرت اس کا انداز گفتگو ،اس کی
شائستگی،مروت دیانتداری،صداقت وغیرہ اوصاف کا خیال نہیں رکھا جاتا۔اس کا کردار سراسر نقل ہوتاہے اس کی صحبت کااس پربرا اثر پڑتا ہے۔اکثر گھروں میں خاص کر سردیوں کے دنوں میں گاوں کے نوجوان باری باری گھروں میں کریم بورڈ ،تاش وغیرہ کھیلتے رہتے ہیں رات گئےتک اس محفل میں گیت کی گھنگرج سگریٹ کا دھوان اور فضول گپ شپ لگی رہتی ہے بچے اس محفل میں شریک رہتے ہیں ۔ہمارا معاشرہ ایک بے ہنگم شور میں بدل گیا ہے ہر کہیں بگاڑ ہے معاشرہ امیرزادوں اور غربت کے ماروں میں تقسیم ہے اس وجہ سے مایوسی کاماحول ہے امیر زادے کردار سےخالی ہوتے جارہے ہیں غریب زادے ان کی نقل کررہے ہیں ۔ہمارے بچے صبر،برداشت ،تحمل اور کمپرومائز سے عاری ہیں اس لیے ٹنشن ،خود کشیاں اور جرائم بڑھ رہے ہیں ہمارے تعلیمی ادارے گھروں کے بعد تربیت گاہ کاکام کرتے تھے اب استاذ بھی اس طرف توجہ نہیں دیتا۔کلاس روم میں زندگی اوراقدارنہیں پڑھاتا روٹین کا کام ہوتا ہے ۔اس وجہ سے ہمارے اقتدار خود ہمارے ہاتھوں مٹتے جارہے ہیں اس کے ہم ہی مجرم ہیں ۔بیٹی کے سرسےدوپٹا ہم ہی سرکاتے ہیں ان کے چہروں سے شرم وحیاء کی روشنی ہم ہی بجھاتے ہیں ہماری دلیل ہوتی ہے زمانہ بدل گیا ہے ۔زمانہ کہیں نہیں بدلا ہم نقال ہیں ہم فکری اور ذہنی غلام ہیں ہم نے فیشن کو صلاحیت سمجھ رکھا ہے آہستہ آہستہ ہماری مادری زبان،ہماری ثقافت اور اقدار مٹ جائیں گے جس کے مجرم ہم ہی ہوں گے ۔ہماری بچیوں نے ڈھولک کی تھاپ پہ ناچنا شروع کردیا ہے ہم نے مہندی کی رسم شروع کی ہے کہتے ہیں اس میں تھرکنا لازمی ہے ۔ہم سالگرہ دھوم دھام سے منانے لگے ہیں ہم نے شادی بیاہ کو اپنی ثقافت سے خالی کر دیا ہے ۔ہم اپنے بچوں کو موسیقی کی محفلوں میں لے جاکر نچانے لگے ہیں اور ان کو تالیاں بجاکے داد دینے لگے ہیں ۔ہم نےاپنے بچوں کے ذہنوں سے کھوار زبان کی اہمیت نکال دیاہے قومی لباس کااحترام نکال دیا ہے اپنی قومی تشخص اور وقار کی پہچان ختم کردی ہے ۔ہماری نوجوان نسل کا ایک خواب ہے کہ دوچار لفظ انگریزی بولیں اور اعیارکی نقل کریں ہماری تعلیم کا مقصد بھی یہی کچھ رہ گیا ہے اس لیے بجاطور پر کہا
جاسکتا ہے کہ ہم اپنی مٹتی ثقافت کے مجرم ہیں ہماری نوجوان نسل اتنا قصور وار نہیں جتنا ہم ہیں ۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button