293

کیا صحافت اِسی کا نام ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

قلم کی حرمت کا احساس ہی صحافت کی اصل روح لیکن پاکستان میں یہ روح زخموں سے چور۔ انگلیوں پہ گِنے چند تجزیہ نگاروں کے سوا سبھی کا اپنا اپنا قبلہ اور اپنا اپنا کعبہ۔ صحافت میں کثافت کا عنصر بدرجۂ اتم اور ’’بکاؤ مال‘‘ جابجا لیکن یہ بھی عین حقیقت کہ سبھی بکاؤ نہیں البتہ اپنے اپنے ممدوحین کی مد ح سرائی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر۔ اِسے صحافت کہا جا سکتا ہے نہ تجزیہ نگاری ۔
ایک معروف لکھاری نے پچھلے دنوں اپنے کالم میں اپنے ممدوح عمران خاں کی تعریف وتوصیف میں جو کچھ لکھا، اُس پر حیرت بھی ہے اور افسوس بھی کہ یہ تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اُنہوں نے لکھا ’’پاکستان کے منتخب وزیرِاعظم جو خالصتاََ عوامی ووٹوں سے جیت کر آئے ہیں، اُن کے بارے میں ’’سلیکٹڈ‘‘ کا لفظ وہ لوگ استعمال کر رہے ہیں جو خود آمروں کے راستے اقتدار میں آئے‘‘۔ محترم عمران خاں ’’الیکٹڈ‘‘ ہیں یا ’’سلیکٹڈ‘‘، اِس کا فیصلہ ہم تاریخ پر چھوڑتے ہیں لیکن جو بات لکھاری موصوف نے لکھی، وہ سچ ہے مگر ادھورا سچ کہ ایوب خاں سے پرویزمشرف تک کون ہے جو آمروں کے راستے اقتدار میں نہیں آیا؟۔ لکھاری موصوف کے ’’ممدوع‘‘ بھی تو تحریکِ انصاف کا جھنڈا اُٹھائے پرویزمشرف کے جلسوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ جب پوری قوم پرویزمشرف کے ریفرنڈم کو محض ایک ٹوپی ڈرامہ سمجھتی تھی،کپتان گلی گلی اُس کے حق میں تقریریں کیا کرتے تھے۔
آمر پرویز مشرف نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ 2002ء کے انتخابات میں عمران خاں بھی وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار تھے۔ جب پرویز مشرف کو ’’خفیہ‘‘ والوں نے رپورٹ دی کہ کپتان صاحب دو، تین سیٹوں سے زیادہ نہیں جیت سکتے تو اُنہوں نے خاں صاحب کو بلا کر ساری صورتِ حال اُن کے سامنے رکھی اور کہا کہ وہ اُنہیں سات، آٹھ سیٹیں ہی دے سکتے ہیں، اِس سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ لیکن کپتان کا خیال تھا کہ تحریکِ انصاف اِس سے کہیں زیادہ سیٹیں جیتنے والی تھی۔ جب 2002ء کے انتخابی نتائج سامنے آئے تو خاں صاحب دو، تین تو کجا، بمشکل اپنی سیٹ ہی جیت پائے اور پورے پاکستان میں تحریکِ انصاف کو ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم ووٹ ملے۔
آمروں کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے والے تو ’’توبہ تائب‘‘ ہوتے رہے لیکن کپتان نے زورآوروں کا دامن کبھی نہیں چھوڑا اور آج بھی اُن کی پشت پر بقول تحریکِ انصاف کے سابق صدر جاوید ہاشمی ’’وہ‘‘ کھڑے ہیں جنہیں 2014ء کے دھرنے میں کپتان ’’امپائر‘‘ کہا کرتے تھے اور ہمراہیوں کو امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کی نوید سنایا کرتے تھے۔ شاید یہ انگلی کھڑی ہو بھی جاتی لیکن یہاں بھی کپتان اپنا کہا سچ ثابت نہ کر سکے۔ اُنہوں نے چند ’’زورآوروں‘‘ کو یقین دلایا تھا کہ تحریکِ انصاف لاہور سے پانچ لاکھ افراد کی ریلی لے کر اسلام آباد پہنچے گی لیکن ہوا یہ کہ جب کپتان لاہور سے نکلے تو غیرجانبدار مبصرین کے مطابق ریلی میں شرکاء کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ یہ ریلی جب ڈی چوک اسلام آباد پہنچی تو سکڑتے سکڑتے محض پانچ ہزار تک محدود ہو گئی۔ اگر مولانا طاہرالقادری اپنے پچیس، تیس ہزار ’’مریدین‘‘ کے ساتھ ڈی چوک اسلام آباد نہ پہنچتے تو کپتان کا دھرنا ایک، آدھ دن میں ہی ’’ٹائیں ٹائیں فِش‘‘ ہو جاتا۔ محترم لکھاری یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ جب مولانا طاہرالقادری نے مایوس ہوکر اپنا بستربوریہ سمیٹاتو دھرنے کا یہ حال ہوگیا کہ کپتان کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے افراد کی تعداد زیادہ ہوتی تھی اور سامعین کی کم۔
محترم لکھاری اپنے کالم میں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہار جیت میں ’’طاقت کے اصل مراکز‘‘ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اُنہوں نے لکھا ’’میرے خیال میں 2018ء میں بھی کچھ سیٹوں پر جان بوجھ کر الیکشن ہروایا گیا، جیسے سندھ میں جی ڈی اے کو ہروایا گیاتاکہ طاقت کے اصل مراکز کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو کیونکہ اُنہیں بھاری مینڈیٹ وارے نہیں کھاتا’’۔ شکر ہے کہ محترم لکھاری نے یہ تو تسلیم کیا کہ طاقت کے اصل مراکز کا ’’حسنِ کرشمہ ساز‘‘ جو جی چاہے، کر سکتا ہے۔ یہی بات تو اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ وہ ہاری نہیں، اُسے ہروایا گیا ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں بھی وہی کہہ رہی ہیں جو محترم لکھاری تحریکِ انصاف کے بارے میں کہہ رہے ہیں تو پھر اُتنی دیر تک کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا جب تک دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہ ہوجائے۔ ویسے بھی نتائج کے عین درمیان سسٹم کا فیل ہوجانا، نتائج کا رُک جانا اور پچانوے فیصد فارم 45 پر پولنگ ایجنٹس کے دستخط نہ ہونا بہت سے شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔ محترم لکھاری کے ’’ممدوح‘‘ نے تو پہلے دن ہی اعلان کیا تھا کہ اپوزیشن جو حلقہ بھی چاہے، کھلوا لے لیکن لاہور میں عمران خاں کے مقابلے میں چھ سو ووٹوں سے ہارنے والے خواجہ سعدرفیق نے جب اپنا حلقہ کھلوایا تو ابھی پندرہ پولنگ سٹیشنز کی گنتی بھی نہیں ہوئی تھی کہ بابراعوان بھاگم بھاگ ’’سٹے آرڈر‘‘ لے آئے۔ الیکشن 2018ء پر اعتراضات کے بارے میں پارلیمنٹ میں تشکیل دی جانے والی پارلیمانی کمیٹی بھی ابھی تک فعال نہیں ہوسکی۔ ایسے میں یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ کپتان ’’سلیکٹڈ‘‘ نہیں، ’’الیکٹڈ‘‘ ہیں۔
آگے چل کر محترم کالم نگار لکھتے ہیں ’’عمران خاں کو کامیاب حکمران بننے کے لیے تین رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا‘‘۔ اُن کے خیال میں پہلی رکاوٹ بے لگام بیوروکریسی، دوسری رکاوٹ اُن کے وزرائے اعلیٰ اور وزراء اور تیسری بڑی رکاوٹ مرکز اور صوبوں میں مشیروں کی فوج ظفرموج ہے۔ بیوروکریسی کو تو رکھیئے ایک طرف کہ اِس میں صرف اکھاڑ پچھاڑ ہی ممکن ہے لیکن اپنی ٹیم کا انتخاب تو خود کپتان صاحب کے بَس میں تھا۔ محترم لکھاری لکھتے ہیں’’ وزرائے اعلیٰ اور وزراء عمران خاں کا ایجنڈا آگے بڑھانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔ مرکز اور صوبوں میں مشیروں کی فوج ظفرموج عمران خاں کے سیاسی معاملات کو نہیں سنبھال رہی۔ اِن میں سے اکثریت تو اُن لوگوں کی ہے جنہیں سیاست کی الف بے کا پتہ نہیں، پی ٹی آئی کے اتحادی روزانہ کی بنیاد پر بلیک میلنگ کرتے ہیں اور مشیر صاحبان کچھ بھی نہیں کرتے‘‘۔ بجا ارشاد! سوال مگر یہ کہ جو شخص دو، تین سو افراد میں سے بہترین ٹیم کا انتخاب کرنے سے بھی قاصر ہے، وہ پورا ملک کیسے سنبھال پائے گا؟۔ حقیقت یہی کہ جب اقتدار کی ہوس اپنی انتہاؤں کو چھونے لگے تو عقل کہیں دور بیٹھی تماشہ ہی دیکھتی ہے۔ کپتان کو ڈھلتی عمر نے اتنا بوکھلا دیا تھا کہ وہ بہرصورت ’’شیروانی‘‘ پہننا چاہتے تھے۔ شادیوں کی شیروانی کا مزہ تو وہ چکھ چکے، اب وزارتِ عظمیٰ کی ’’شیروانی‘‘ کا مزہ بھی چکھ کے دیکھ لیں۔ نہیں کہا جا سکتا کہ کپتان ’’بھولپن‘‘ میں مار کھاگئے۔ اُنہوں نے جو کچھ کیا، خود کیااور ’’خود کردہ را علاجے نیست‘‘۔
2018ء کے انتخابات سے پہلے وہ کہا کرتے تھے کہ مختلف جماعتوں سے مل کر حکومت بنانے سے بہتر ہے کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھ جائیں لیکن جب وقت آیا تو سات جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی اور وہ بھی محض چند ووٹوں کے فرق سے۔ جس شخص کو وہ اپنا چپڑاسی تک رکھنے کو تیار نہیں تھے، اُسے ریلوے کی وزارت سونپ دی۔ جو کل تک پرویزمشرف کا غلامِ بے دام تھا، اُسے اطلاعات ونشریات جیسی بڑی وزارت دے دی۔ جو کپتان کے کاغذوں میں چور اور ڈاکو تھا، اُسے نہ صرف پنجاب کا سپیکر بنا دیا گیا بلکہ اُس کے ساتھیوں کو مرکز اور پنجاب میں وزارتوں سے بھی نوازا گیا۔ جس جماعت کے خلاف کپتان ثبوتوں کے اٹیچی کیس بھر کے لندن یاترا کیا کرتے تھے، اُسے نہ صرف سینے سے لگایا بلکہ وزارتوں سے بھی نوازا۔ جہاں وزارتیں ختم ہو گئیں، وہاں یاروں دوستوں کو قطار اندر قطار مشیر بھرتی کر لیا گیا۔ کپتان کے دو اے ٹی ایم تھے، ایک جہانگیرترین اور دوسرا علیم خاں۔ جہانگیر ترین تاحیات نااہل ہوکر سیاست سے آؤٹ ہوگئے اور علیم خاں کونیب نے گرفتار کر لیا۔ اب پنجاب کا صوبہ کون سنبھالے گا؟ عثمان بزدار تو سنبھالنے سے رہے کہ اُن کی وزارتِ اعلیٰ تو آج گئی کہ کل گئی۔ ’’زورآوروں‘‘ کے ہاںیہ فیصلہ ہو چکا جسے ایوانِ وزیرِاعظم میں بیٹھی اعلیٰ ترین خاتون بھی شاید روکنے سے قاصر ہو۔ شنید ہے کہ چودھری پرویزالٰہی کے ہاں علیم خاں کی گرفتاری پر جشن منایا جا رہاہے اور چودھری صاحب کوپنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے خواب بھی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
آخر میں محترم لکھاری سے درخواست ہے کہ وہ ہمیں گُمشدہ تحریکِ انصاف کا پتہ بتا دیں کیونکہ جو تحریکِ انصاف نظروں کے سامنے ہے، وہ تو ’’بھان مَتی کا کنبہ‘‘ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں