256

’ہزاروں سال نرگس۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات ’‘‘

زمانے نے ،قوموں نے،دور نے اور تاریخ نے یہ دیکھا کہ ہزاروں سال نرگس روتی رہی ’’دید ہ ور ‘‘کی آرزوکرتی رہی ۔تاریکیاں بڑھتی رہیں ۔آزمائشیں آتی رہیں ۔تب کہیں جا کے دیدہ ور پیدا ہوئے ۔ہوا کا رخ بد ل دیا۔قوموں کی زندگیاں بد ل دیں ۔یہ تاریخ کی تلخ ترین اور موثر ترین سبق ہے ۔زندہ قومیں اس سے سبق سیکھتی ہیں۔قوموں کی تقدیروں کا انحصار قوم کے اس طبقے پر ہے جو مفلوک الحال ہوتا ہے۔ جو غریب ہوتا ہے ۔جس کا چولہا بجھا ہوا ہوتا ہے ۔جس کو اپنی تھار گذار کی فکر ہوتی ہے ۔جن کے نزدیک آرام د ہ سفر ،پرتعیش کھانے ،زر ق برق لباس ،کشادہ گھر خواب سے کم نہیں ہوتے ۔انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں کہ یہ حکمران طبقے ،یہ ٹی وی پر چیخنے چلانے والے ،یہ حقوق دلانے کے دعویٰ کرنے والے ،یہ محرومیاں دورکرنے کی دھائیاں دینے والوں کی اپنی زندگیاں کیسی ہیں ۔کیا وہ بھی بھوک پیاس محسوس کرتے ہیں۔ کیا ان کو بھی پیاس ستاتی ہے۔کیا کبھی ان کی جیب بھی خا لی ہوتی ہے۔کیا کبھی ان کے بچے بھی سکول جانے سے قاصر رہتے ہیں ۔۔کیا ان کی بیویاں بھی علاج نہ ہونے سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کرسسکیاں لے لے کرمرتی ہیں ۔یہ طبقہ ان سوچوں تک سے محروم ہے ۔انھوں نے زندگی کی کوئی اور شکل دیکھی ہے۔ اس زندگی میں حال احوال کا تنوغ ہوتا ہے ۔صبحیں رنگین ،شامیں سہانی ،موسموں کی صرف رنگینیاں ۔۔نہ برف ستاتی ہے ۔نہ گرمی جھلساتی ہے۔نہ آندھی طوفان کا خطرہ ہوتا ہے ۔نہ بارشیں چھت ٹپکاتی ہیں ۔نہ گھنگور گھٹائیں افسردگیاں لاتی ہیں ۔نہ سڑکوں پر پھسلن کاخطرہ ہوتا ہے ۔نہ بازار جانے سے پہلے جیبیں ٹٹولی جاتی ہیں ۔ ان کے پاس کسی کا درد محسوس کرنے کاحس ہوتا ہی نہیں ۔نرگس ان کی بے نوری پہ روتی ہے اور اپنی بے نوری پہ بھی روتی ہے ۔چمن میں ہر طرف اندھا پن کا سماء ہوتا ہے گلشن انسانیت میں دیدہ ور کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی ہے ورنہ یہ گلشن کانٹوں سے بھر جاتا ہے ۔یہ جنگل بن جاتا ہے ۔اس میں درندوں کا راج ہوتا ہے ۔چیر پھاڑ ہوتا ہے ۔انسانیت لہو لہان ہوتی ہے ۔زبردست اور زیر دست کا فرق آسمان چھوتا ہے ۔اونچ نیچ پہچان بن جاتی ہے ۔تب دیدہ ور کی آرزو ستاتی ہے ۔۔نرگس روتی ہے ۔بے بس انسانوں پہ عرش کے مالک کو تر س آتا ہے ۔دیدہ ور کا ظہور ہوتا ہے ۔درندوں کا قلع قمع کیا جاتا ہے ۔ہر ایک کو جینے کا حق ملتا ہے ۔انسانیت ہنستی ہے ۔اونچ نیچ پاٹ دیا جاتا ہے ۔انسانیت کے سرٹیفکیٹ کی قدروقیمت ہوتی ہے ۔ دیدہ ور انسان بن کے بولتا ہے ۔انسان بن کے کام کرتا ہے ۔اپنا آرام تج دیتا ہے ۔درد دل سے ملامال ہوتا ہے ۔۔پاک سر زمین میں بھی دیدہ ور کی تلاش رہی ہے ۔۔ہر دور میں اس کو شدت سے محسوس کیا جاتا رہا ہے ۔۔جس کی بھی حکومت آئی اس کو دیدہ ور سمجھا گیا لیکن جنگل جنگل ہی رہا ۔۔درندے چیر پھاڑ تے رہے ۔حقوق کی دھائیاں آتی رہیں ۔فلاحی ریاست خواب ہی رہی ۔اب بھی شاید صورت حال ایسی ہی ہے ۔لیکن پاک سر زمین کے نئے صاحب اقتدار امید باندھاتے ہیں ۔مسیحا صفت ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔مسیحا بننا بڑا مشکل کام ہے ۔بہت ساری قربانیاں دینی پڑتی ہے ۔بگڑے سسٹم کو سنوار نا مشکل کام ہے ۔بڑی آزمائیشیں درپیش ہونگی بڑے امتحانات ہونگے ۔ہمت کرنا پڑے گا ۔جرات مضبو ط ہونی ہوتی ہے ۔صبر اور استقلال ھتیار ہیں ۔اگر صاحب اقتدار کو اس بات کی فکر ہو کہ معاشرے کا محروم و مقہور طبقہ ،بے بس و مجبور طبقہ مشکلات سے نکل آئے ۔ان کی محرومیاں دور ہوں ۔زندگی کی آسانیاں ان کو بھی میسر ہوں ۔ان کو بھی جینے کا حق ہو تو پھر یہ مشکل امتحان ہے اس امتحان سے نکل کے ہی کوئی دیدہ ور کا کردار ادا کر سکتا ہے ۔موجودہ وزیر اعظم اگر مخلص ہیں تو اس کے ساتھ اللہ کی مدد ہوگی بر ملاہوگی اور وہ اپنے کسی امتحان میں ناکام نہیں ہونگے ۔غریبوں کی آہیں اثر کرتی ہیں ۔کیوں نہ ان کی آہوں کے نتیجے میں یہ دیدہ ور ان کو عنایت کی گئی ہو ۔لیکن ہمیں پھر بھی خان صاحب سے بہت سنجیدہ سیاست کی توقع ہے ۔بہت زیادہ خدمت کی توقع ہے ۔مجھے ان کا قومی لبا س اچھا لگتا ہے ۔لیکن پتہ نہیں ان باتوں میں جس میں فضول خرچیوں کی حوصلہ شکنی ہے کتنی طاقت ہے ۔یہ خلوص ،دیانت ،صداقت اور اس قسم کی صلاحیتیں ایک دن میں سامنے نہیں آتیں ۔ہم اس سمے اپنے مخلص حکمرانوں کو دعا دیتے ہیں ۔کہ اللہ ان کو دیدہ ور کرے ۔اور نرگس کے ہزاروں سال کے آنسو رنگ لائیں ۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں