250

صدا بصحرا ۔۔۔۔۔ملکی معیشت کے خَط و خال ۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

بڑی خبر آئی ہے کہ حکومت نے بعض جماعتوں اورتنظیموں پر پابندی لگاکر انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ سے قرض لینے کے لئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کی شرائط میں سے ایک شرط کو پورا کردیا ہے قوم کو یہ خبر دیتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف 28مارچ کی مٹینگ میں پاکستان کو مشکوک فہرست سے نکال کر صاف اور قابل اعتبا ر ملکوں کی فہرست میں ڈال دیگی آئی ایم ایف کا بڑا شک دور ہو جائے گا البتہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سکر ٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے بھارت پر الزام لگایا ہے کہ بھارت اب بھی ایف اے ٹی ایف کی ایشیاء پے سیفک کمیٹی میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے لئے لابنگ کر رہا ہے اس حوالے سے پاکستان نے بھارت کو ایف اے ٹی ایف کی کمیٹی سے نکالنے کا مطالبہ کیا ہے دوسری طرف یہ بھی خبر آئی ہے کہ نئے بجٹ سے پہلے آئی ایم ایف نے قرضہ نہیں دیا تو ملکی معاشی حالات دگر گوں ہو جائینگی اس کی تمام تر ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر عائد ہو گی جنہوں نے ملک کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا دی اکانو مسٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اندر مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے غربت کی شرح میں بڑھوتری کے اشارے مل رہے ہیں اور بے روزگار کی شرح میں اضافہ کے ساتھ سماجی بھلائی ، عوامی فلاح و بہبود اور سماجی خدمات کے شعبوں میں زبوں حالی اور تنزلی دیکھی گئی ہے رپورٹ کے مطابق گذشتہ 10سالوں میں پاکستان کے معاشی اشاریوں کے اندر اتنی کمی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی معاشی تجزیہ نگاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حالات جوں کے توں رہے تو اگلے 5سالو ں میں چار شعبوں کے اندر مزید ابتری دیکھنے کو ملے گی بنیادی ڈھانچہ بربادی سے دو چارہوگا پیداواری صلاحیت متاثر ہوگی بین الاقوامی تجارت میں ادائیگیوں کا توازن بگڑ جائے گا پاکستانی کرنسی کی قدر میں مزید کمی آئیگی اور ان چار خرابیوں کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا غربت اور بے روزگاری مزید بڑھے گی معاشرتی بے چینی میں اور بھی اضافہ ہوگا اور منتخب حکومت پر عوام کا اعتماد مزید مجروح ہوگا مہنگائی کی شرح ، غربت کی شرح اور بے روز گاری کی شرح کا موازنہ 2008ء اور 2017ء کے ساتھ کرنا ایک فنی اور تکنیکی کا م ہے دی اکانومسٹ اور دیگر جرائد نے ان پہلووں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے موجودہ حکومت کے حوالے سے ماہرین نے ایک جائز ہ بھی پیش کیا ہے جائزے کو انگریزی میں مخفف کرکے ’’سوٹ‘‘ (SWOT)کا نام دیا گیا ہے یعنی خوبیاں ، خامیاں مواقع اور خطرات، خوبیوں میں نمایاں خوبی یہ ہے کہ حکومت کو قومی اداروں کا بھر پور تعاون حاصل ہے کمزوریوں اور خامیوں میں بڑی کمزوری یہ ہے کہ حکومت کے پاس کسی شعبے کا کوئی ماہر نہیں ہے اقتصادیات اور پارلیمانی اُمور سے لیکر دیگر شعبوں تک ہر شعبے میں ’’شوقیہ فنکار ‘‘بیٹھے ہوئے ہیں انگریزی میں ان کو amateureکہا جاتا ہے مواقع کا اگر جائزہ لیا جائے تو بے شمار مواقع آرہے ہیں سی پیک بہت بڑا موقع ہے گذشتہ 6مہینوں سے اس پر جو شکوک و شبہات پیدا کئے گئے ان کو دور کرنے میں بہت وقت لگے گا خطرات میں سب سے بڑاخطرہ یہ ہے کہ چند اہم ممالک سی پیک اور گوادر بندرگاہ کو اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور پاکستان کو گھیرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اُن میں سے امریکہ، بھارت ، ایران اور متحدہ عرب امارات کے عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں اس لئے پاکستان کی حکومت کو چومکھی لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نا تجربہ کار مشیروں نے حکومت کو داخلی محاذ پراُلجھا رکھا ہے ملک ریاض اور میاں منشاسے لیکر عقیل ڈھیڈی تک لاکھوں سر مایہ کاروں کے خلاف مقد مات دائر کئے گئے ہیں بڑی تعداد میں کاروباری لوگوں نے اپنا سر مایہ نکا ل لیا ہے بینکوں پر حملہ کر کے بچت اور کرنٹ اکاؤنٹس کو بھی نشا نہ بنا یا گیاہے ٹر م ڈیپازٹ اور دیگر اقسام کے حسا بات کو بھی نقصان پہنچا یا گیاہے بیرونی ممالک سے آنے والی تر سیلات کو روک دیا گیا ہے ملک کے اندر سر مایے کی گردش تین طریقوں سے ہو تی تھی وہ تینوں طریقے بند کئے گئے ہیں پہلا طریقہ کار یہ تھا کہ پبلک سیکٹر ڈیو لپمنٹ پروگرام (PSDP)کے ذریعے پیسہ مارکیٹ میں آتا تھا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ تعمیر اتی صنعتوں میں نجی سرما یہ کاری ہو تی تھی اور کروڑوں لوگوں کو روز گار ملتا تھا تیسرا طریقہ یہ تھا کہ جا ئد اد کی خریدو فروخت سے سر مایہ گردش میںآتا تھا گذشتہ ڈیڑھ سال سے تینوں راستے بند کر دئیے گئے ہیں سر مایہ کی گردش رو ک دی گئی ہے مارکیٹ پر خوف اور آسیب کا سا یہ ہے فیلڈ ایوب خان اور جنرل ضیا ء الحق کے ادوار میں ذرائع ابلاغ پر پا بند یاں تھیں اس کے با و جود مارکیٹ کو آزادی سے کام کر نے کی اجازت تھی جنرل مشرف کے دور میں ذرائع ابلاغ سے بھی پا بند یا ں اُٹھا ئی گئیں مارکیٹ کو بھی سا ز گار فضا مہیا کی گئی 2008 ؁ء اور 2013 ؁ء کے انتخابات کے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی مارکیٹ پر نا ر وا پا بند یاں نہیں لگا ئیں مہنگا ئی کی شرح کو کم کر نے ، غر بت کو دور کر نے اور بے رو ز گاری پر قابو پانے میں 40 فیصد حصہ سر کاری شعبے کا اور 60 فیصد حصہ نجی شعبے کا ہو تا ہے سویت یونین نے نجی شعبے پر پا بند یاں لگا ئیں اس کا نظام درہم برہم ہوا عوامی جمہو ریہ چین نے نجی شعبے کی حوصلہ افزا ئی کی اور اس کی معیشت نے امریکہ کی معیشت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا بھارت نے اگر ٹاٹا گروپ کے مالک کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا تو 24 گھنٹو ں میں اس کی سٹا ک مارکیٹ مندی سے دوچار ہو جائے گی اس لئے ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے ساتھ معا ملات کو درست کر نا بھی ضروری ہے ساتھ ساتھ ملک کے اندر معا شی استحکام کے لئے کاروباری حلقوں کو آزادی سے کام کر نے کی اجا زت دینا ہو گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں