221

دا بیداد ۔۔۔۔۔مہنگائی کے کئی پہلو ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی 

مہنگائی کا شور سن کر اکنا مکس کے سینئر پرو فیسر نے کہا اس مو ضوع کو تین پہلو وں سے دیکھو بازار میں خریداروں کا کتنا رش ہے ؟اشیائے صرف کی کتنی قلّت ہے ؟اور عوام کی قوت خرید کتنی ہے ؟ ایک نا خواندہ صارف نے کہا مہنگائی کو گھر کی پیداوار کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھو ایک مر غی کے بدلے میں پہلے کتنا گھی آتا تھا ؟کتنی چینی آتی تھی ؟ کتنے صابن آتے تھے ؟ اب کتنے آتے ہیں؟ ایک سینئر اخبار نویس نے کہا مہنگائی کا اندازہ اشیائے صرف کی قیمتوں کے ماہانہ انڈکس کو دیکھ کر لگا یا جا سکتا ہے 2008میں یہ انڈکس 6.4تھا جو لائی 2018میں 9.1ہوگیا اپریل 2019میں 9.41تک پہنچ گیا ہے تجار یو نین کے ایک عہدیدار نے کہا مہنگائی کا اندازہ کسی بینک میں ر وز مرّہ کی تر سیلات (Transactions)کو دیکھ کر لگا یا جا سکتا ہے بینک میں سر کا ری خزانہ اور نجی اداروں کے کتنے چیک روزانہ نقدی میں بدل دیئے جا تے ہیں ؟ اور کتنی رقم روزانہ بچت اکاونٹ میں جمع کی جاتی ہے ؟ اس سے مہنگائی کا اندازہ ہو تا ہے یہی بات ایک قا نون دان کے سامنے رکھی گئی اُس نے کہا یہ قا نون اور کتا بوں کا مسئلہ نہیں یہ کامن سینس اور مشاہدے پر منحصر ہے آپ اسلام اباد کے پشاور موڑ ، آب پارہ یا پشاور کے گھنٹہ گھر اور فوارہ چوک پر جا کر دیکھیں کتنے مزدور، گلکار ، رنگ ساز وہاں اپنے اوزار لیکر صبح سے سہ پہر تک بے روز گار بیٹھتے ہیں اور شام کو خا لی ہاتھ گھر جا تے ہیں ؟ ہم نے کہا یہ بے روز گاری ہے ، وکیل صا حب بو لے یہ مزدور کے لئے بے روز گاری اور تعمیراتی کام کرانے والے کے لئے مہنگائی کا اشارہ ہے سفید پو ش طبقہ اور متوسط طبقہ قوت خرید کھو دیتا ہے تو مزدور اور کاریگر بے روز گار ہو جا تا ہے آپ تصّورات کی دنیا سے نکل کر عملی زندگی میں قدم رکھیں اور زمینی حقائق کو دیکھیں تو آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جائینگے اخباری خبروں کے مطابق ستمبر 2018سے لیکر مارچ 2019کی شش ما ہی میں مہنگائی 6.7فیصد بڑ ھی ہے لیکن عملی طور پر ٹما ٹر 216فیصد مہنگے ہو گئے ،سبز مرچ 151فیصد مہنگے ہوگئے ، مٹر وں کا نرخ 54فیصداورکھیرے کا ریٹ 45فیصد بڑ ھ گیا، بسوں ،لاریوں اور ویگنوں کے کرایوں میں 47فیصد اضا فہ ہوا بجلی ، گیس اور تیل کو 138فیصد مہنگا کیا گیا آپ کسی سہانی شام کو آب پارہ ، کراچی کمپنی اسلام اباد،فردوس چوک یا چر گانو چوک پشاورکا چکر لگائیں ریڑھی بان شام تک گا ہک کی راہ تکنے کے بعد بھرا ریڑھا کپڑے سے ڈھانپ کر خا لی ہاتھ گھر جاتے ہیں 1960کے عشرے میں جن لو گوں نے یو رپ کا سفر کیا اُن لو گوں نے سفر نا موں میں لکھا ہے کہ کمیو نسٹ ملک کو پہچاننے کے لئے بورڈ اور نقشے کی ضرورت نہیں تھی بازار میں خریداری دیکھ کر اندازہ لگا یا جا تا تھا کہ کون سا ملک کمیو نسٹ ہے ؟ ایسے ممالک میں پیداواری زمینوں پر سر کار کا قبضہ ہوتا تھا مزدور کی اجرت بہت کم تھی اس لئے لو گ بازار میں خریداری نہیں کر سکتے تھے یہاں ایک اور تکون کا م دیتا ہے یہ تکون ہے سر کاری پا لیسی ، ذرائع پیداوار کی تقسیم اور آزاد کاروبار یا روز گار کے مو اقع یہ ایسا تکون ہے جو مہنگائی کے تین پہلو وں پر حا وی ہے مہنگائی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ملک میں معاشی سر گرمیوں کی کتنی اجا زت ہے ؟ کتنی آزاد ی ہے ؟ دوسرا پہلو یہ ہے کہ پیدا وار کے ذرائع کس کے پاس ہیں اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ روز گار کے مو ا قع کتنے ہیں ؟ 2004ء میں ایشیا ئی تر قیا تی بینک کے ما ہرین نے جنو بی ایشیاء میں مہنگائی کا جا مع سروے کیا بھا ر ت کے صو بہ آسام میں ایک ان پڑھ بڑھیا نے سروے کرنے والی ٹیم کو بتا یا کہ مہنگائی با لکل نہیں ہے میں نے 84سال کی عمر میں مہنگائی نہیں دیکھی میں 6سال کی بچی تھی تو ماں 4انڈے مجھے دے کر بازار بھیجتی تھی 6سال کی عمر میں 6انڈوں کی قیمت میں ایک سیر چینی آتی تھی آج میرا پوتا 6انڈے لیکر بازار جا تا ہے تو ایک سیر چینی لے آتا ہے میں نے کبھی مہنگائی نہیں دیکھی ہمارے استاد و قار احمد کہا کر تے تھے کہ میری تنخوا ہ 1964ء میں ایک گائے کی قیمت کے برابر تھی 40سال کی نو کری اور گریڈ 17سے گریڈ 20تک تر قی کے بعد میری تنخواہ پر اب بھی ایک گائے خریدی جا سکتی ہے نو بل انعام یا فتہ ما ہر معا شیات ڈاکٹر امرتاسن کی پیش گوئی ہے کہ بائیسویں صدی میں غر بت کو ڈالر کے حساب سے نہیں نا پا جائے گا بلکہ غر بت کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے گا کہ کس کے پا س کتنی زمین ہے؟ گھریلو پیدا وار کے کتنے ذرائع ہیں؟ جدید دور میں اچھی حکومت کی نشانی یہ ہے کہ وہ پیدا واری ذرائع پر توجہ دیتی ہے معاشی سر گر میوں کی حو صلہ افزائی کر تی ہے اور متوسط یا سفید پو ش طبقے کو سہا را دیتی ہے متوسط طبقہ سکڑ جائے تو غر بت بڑھتی ہے مہنگائی میں اضا فہ ہو تا ہے یہی حال ہمارا ہے امیر خسرو نے محبوب سے کہا تھا ؂
ہر دو عالم قیمت خود گفتہ ای
نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں