258

ہماری اردو کا جنازہ……محمد جاوید حیات 

اردو میں لاش مونث استعمال ہوتی ہے مگر جنازہ مذکر۔۔ یہ اردو زبان کی پیچیدگی ہے اور اس زبان کی قسمت کا کیا کہنا کہ یہ جس قوم کی زبان ہے وہ اس کو بولنے میں عارمحسوس کرتی ہے ۔یہ زبان اس قوم کی پہچان ہے یہ خالص اس کی کوک سے جنم لی اس کے ہاں پرورش پائی اور یہ قوم کہہ بھی سکتی ہے کہ انہوں نے اپنے لئے نئے ملک حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے نئی زبان بھی جنم دی یہ کتنی فخر کی بات ہے مگر اس قوم کے نام نہاد تعلیم یافتہ ،آفسر شاہی ،حکمران اور سیاسی مستنڈے اس زبان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اس کو اپنے آقاؤوں کی زبان پر فخر ہے جس کو دو لفظ انگریزی کے آتے ہیں قدم زمین پہ نہیں رکھتے ۔۔یہ ہماری کم مائیگی ہے ۔ہم میں سے اکثر دھوبی کے کتے کی مثال پیش کرتے ہیں کہ آقاؤوں کی زبان پہ دسترس حاصل نہیں ہوتا اپنی کو بے وقعت کرتے ہیں۔ہمارے قومی ٹی وی چینل پر جب میز بان بات کر رہے ہوتے ہیں تو شرم آتی ہے کہ یہ دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ان کی زبان بے بیان سے ایک لفظ اردو کااگر نکلے تو دو لفظ انگریزی کانکلتے ہیں ۔یہ قومی ادارہ ہے ۔یہ آزاد قوم کا ادارہ ہے ۔۔یہ قوم اپنی قومی زبان رکھتی ہے۔ یہ زبان بہت شرین ،شستہ ،واضح ،وسیع دامن ہے۔اس زبان کی ترقی میں اس قوم کے محسنوں نے اپنی زندگیاں دی ۔یہ زبان کسی لفظ ،کسی محاورے یا کسی جملے کے لئے کسی دوسری زبان کا محتاج نہیں ۔اس زبان کے اندر اس قوم کامذہب ، ثقافت ،تاریخ ،تہذیب سب کچھ محفوظ ہے ۔لیکن اس قوم کے حکمران اور بڑے اس زبان کو بولنے میں شرم محسوس کرتے ہیں ۔اس ملک کے آئین میں یہ جملہ لکھاہوا ہے کہ ’’اردو اس قوم کی قومی زبان ہوگی ‘‘ لیکن یہ جملہ انگریزی میں لکھا ہوا ہے ۔او ریہ قوم کہتی ہے ۔کہ اس کے پاس آئین ہے ۔اس قوم کی اعلیٰ عدالت نے فیصلہ کیا کہ اس ملک کے دفتروں میں اردو زبان استعمال ہو ۔یہ فیصلہ ہی ایک زندہ قوم کی پیشانی پہ داغ تھا ۔کہ اس کی اپنی زبان ہو تے ہوئے اس کی عدالتیں اور وہاں پہ فیصلے غیروں کی زبان میں ،اس کی تعلیم غیروں کی زبان میں ،اس کی تقاریر غیروں کی زبان میں ،اس کے احکامات غیروں کی زبان میں ،اس کی پہچان غیروں کی زبان ،اس کی قابلیت اور تعلیم کا معیار غیروں کی زبان میں ۔۔مگر اس فیصلے کو بھی نہیں مانا گیا ۔اب قومی ٹی وی ،قومی خبروں اور قومی اخباروں میں بھی اس زبان کا جنازہ نکالا جارہا ہے ۔اگر ہمارے بڑوں کو یہ اندازہ ہوتا تو وہ اس زبان کی ترقی کے لئے کوشان نہ ہوتے ۔مولوی عبدالحق نے گاندھی سے لڑ لڑ کر اس زبان کو بچایا ۔سر سید احمد خان ،محمد علی جوہر ،ابوالکالام آزاد ،حالی ،اقبال ،قدرت اللہ شہاب ،مختار مسعودوغیر ہ کوکیا انگریزی نہیں آتی تھی کیا وہ آج کے ان نام نہاد تعلیم یافتہ حضرات سے اچھی انگریزی نہیں جانتے تھے ۔انہوں نے اردو پرفخر کیا۔اردو پڑھی۔اردو میں لکھے اور اردو کی اپنی زبان سمجھ کر خدمت کی ۔میرے خیال میں ہم مجرم بنتے جارہے ہیں ۔میرے سامنے جب کسی کی زبان سے بات کرتے ہوئے انگریزی کا کوئی لفظ نکلتا ہے تو وہ لفظ گالی بھی لگتا ہے اور گولی بھی ۔کیونکہ وہ ہماری شناخت کالبادہ تار تار کر رہا ہے ۔وزیر اعظم پاکستان خان صاحب نے قومی لباس کوشناخت دی ہے ۔جہاں جاتے ہیں قومی لباس میں جاتے ہیں ۔اس کواس لباس میں دیکھ کر آنکھیں چمک اُٹھتی ہیں۔اب ہمارا خواب ہے کہ جہان جائے ۔اپنی قومی زبان میں بات کرے ایک ترجمان ہوغیروں کی زبا ن میں اس کاترجمہ کرے ۔یہ آپ کا قوم پر بھی اور قومی زبان پر بھی احسان ہو گا۔اور آگے کم از کم قومی خبر رسان اداروں پر پابندی ہوکہ وہ کسی دوسری زبان کالفظ استعمال نہ کریں۔۔ ہمارے پاس وائس آف امیریکہ اور بی بی سی لندن کی مثالیں موجود ہیں ۔دوسرے ممالک میں جب اردو کاکوئی پروگرام ہوتا ہے تو وہ لوگ ایک لفظ بھی دوسری زبان کا استعمال نہیں کرتے اس لئے کہ وہ اردو بول رہے ہو تے ہیں ۔وزیر اعظم پاکستان پارلیمنٹ میں اردو بولنے کولاز م قرار دے ۔ایسا نہیں کہ ایک لفظ اردو کاہو دوسرا انگریزی کا۔خالص اردو ہو۔ایک تاریخ رقم ہوگی ۔اور خان صاحب کانا م تاریخ میں سنہر ی حروف سے لکھا جائے گا ۔۔کہ ایک ایسا وزیر اعظم بھی پاکستان کی تاریخ میں گذرا ہے جس نے اردو زبان کو اہمیت دی ۔ہمیں انگریزی سیکھنے پر کوئی اعتراض نہیں مگر اردو کے ساتھ اس ظلم پر بہت افسوس ہوتا ہے ۔ہماری زبان ہماری پہچان ہے ۔
محبت کا کانوں میں رس گھولتے ہیں
یہ اردو زبان ہے جو ہم بولتے ہیں
اس کاجنازہ نہیں نکلنا چاہیے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں