213

قدیم اور جدید چترال۔ ۔۔تعلیم کے تناظر میں

چترال پریس کلب کے ‘مہراکہ ‘پروگرام میں ‘جدید اور قدیم چترال ۔تعلیم کے تناظرمیں’کے موضوع پر پشاور یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے سابق چیرمین پروفیسر اسرار الدین نے مہمان کی حیثیت سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ چترال میں تعلیم کی ترقی کو بنیادی طور پر تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جوکہ 1947ءمیں قیام پاکستان سے تک، 1969ءمیں ریاست چترال کا صوبے کے ساتھ انضمام تک اور اس کے بعد کا دور ہے۔ انہوںنے کہاکہ قیام پاکستان کے وقت سٹیٹمڈل سکول چترال ہی قائم تھا جسے1951ءمیں ہائی کا درجہ دیا گیا اور 1953ءمیں میٹرک کا پہلا بیج یہاں سے پاس آﺅٹ ہوا۔ 1947ءسے پہلے تعلیمی سہولیات کا ذکر تے ہوئے انہوں نے کہاکہ سر ناصر الملک کا زمانہ (1936ءتا 1943ئ)تعلیم کی سرپرستی کے لحاظ سے سنہرا دور مانا جاتا ہے جب اس درویش صفت حکمران نے سکول کی موجود عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور ملک کے کونے کونے میں موجود ان افراد کو چترال کھینچ لایا جوکہ مڈل پاس کرچکے تھے اور دئیے سے دیا جلانے کا کام شروع کیا جس کی روشنی سے اب پورا وادی چترال بقعہ نور بن چکا ہے۔ امور ریاست میں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل تھا اور پسماندگی کے اس دور میںانہوںنے اپنی رعایا کو حصول تعلیم کی رغبت دلائی اور حوصلہ افزائی کی۔ سر ناصر الملک کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور مہتران چترال سکول کے سالانہ تقریب تقسیم انعامات میں لازمی طور پر حاضر ہوتے جس سے عام آدمی کو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ۔ اساتذہ کی اکثریت اگرچہ انڈر میٹرک تھی لیکن ان کی علمیت اور پیشے سے شغف اور لگن پر کوئی انگلی نہیںاٹھاسکتا جنہوں نے کوالٹی ایجوکیشن کا ایک بہترین نمونہ قائم کیا ۔ اس دور میں دور دراز علاقوںمیں مکتب سکول قائم تھے جبکہ دروش میں بھی ایک سکول قائم ہوا تھا جس میںشیخ محمد امین سمیت دوسرے مخیر حضرات کا تعاون شامل تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ دوسرے معاصر ریاستوں کے مقابلے میں قیام پاکستان کے وقت حصول تعلیم کے لئے سہولیات کسی حد بہتر حالت میں موجود تھے اور مہتران ریاست اپنی نہایت قلیل اور محدود وسائل کا ایک خطیر حصہ اس شعبے پر خرچ کرتے ۔ تعلیم کے لحاظ سے دوسرے دور کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ 1951ءمیں سٹیٹ مڈل سکول کا ہائی سکول میں اپ گریڈ ہونا ایک سنگ میل تھا البتہ عوام کا اپنے بچوں کو تعلیم کا رجحان کم تھا جس کے مختلف عوامل تھے جن میں غربت سر فہرست تھا۔ اس دور میں تعلیم کے فروغ کے لئے میر عجم خان جیسے پولیٹیکل ایجنٹ یہاں تعینات ہوئے جس نے غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور سکول کی اپ گریڈیشن میں ان ہی کا کارنامہ سمجھا جاتا ہے جبکہ مختلف علاقوں دروش ، بونی اور دوسرے گاﺅںمیں پرائمری لیول پر سکول کھل گئے۔ جب سکول کو ہائی کا درجہ دیا گیا تو اساتذہ کی کمی کا سنگین مسئلہ درپیش تھالیکن میرعجم خان نے اس مسئلے کو آڑے آنے نہیں دیا اور خود باقاعدگی سے کلاس لیتے رہے اور اگر وہ مصروفیات کی وجہ سے کسی دن نہ آسکتے تو پولیٹیکل تحصیلدار کی ڈیوٹی لگواتے ۔(یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1953ءمیں سکول میں میٹرک کے پہلے بیج کے طلباءمیں پروفیسر اسرارالدین خود بھی شامل تھے ) ۔ پروفیسر اسرا رالدین نے مزید بتایاکہ اسی سال 1953ءمیں جب نگران حکومت تشکیل پائی تو اس میں تعلیم کو باقاعدہ طور پر ایک محکمے کا درجہ دے دیا گیا تھا اور محمد جناب شاہ (تمغہ خدمت) کو سیکرٹری مقرر کیا گیا ۔ جب 1969ءمیں ریاست کا انضمام ہورہا تھا تو یہاں بونی ، دروش اور وریجون میں ہائی سکول موجود تھے۔ اس دور میں لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں ہوسکا تھا اور شروع میں مخلوط کلاسیں شروع کی گئیں اور 1960ءکی عشرے کے آخر میں گولدورمیں ایک گھرمیں الگ کلاسوں کا اہتمام کیا گیا جس کے کچھ عرصے بعد چترال اور دروش میں زنانہ سکول کھولے گئے۔ انضمام کے وقت تعلیم کی حالت قدرے بہترہوگئی اور عام لوگ تعلیم کی طرف مائل ہوکر اپنے بچوں کو قریبی سکولوںمیں داخل کرارہے تھے جبکہ سکولوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا تھا لیکن ڈراپ آﺅٹ ریٹ بھی بہت ذیادہ تھا جس کی مثال پیش کرتے ہوئے انہوںنے بتایاکہ 1943ءمیں پہلی جماعت میں 44طالب علم داخل ہوگئے تھے جوکہ جماعت نہم تک پہنچ کر صرف نو رہ گئے ۔
پروفیسر اسرارالدین نے کہاکہ 1969ءمیں انضمام کے بعد سے اب تک کا زمانہ تعلیمی لحاظ سے مسلسل ترقی کا ہے جوکہ اُسی سال انٹرمیڈیٹ کالج کے قیام سے شروع ہوکر اب چترال یونیورسٹی پر منتج ہوگئی اور اس دوران مقدار اور معیار دونوں لحاظ سے تعلیم میں اضافہ ہوتا رہا اور اب سرکاری سیکٹر میں ہائی سکولوں کی تعداد سینکڑوں تک جاپہنچی ہے جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں سکولوں اور کالجوں کا جال اپنی جگہ موجود ہیں۔ اس دور میں تعلیمی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ انضمام کے ساتھ جس طرح دوسرے شعبوںمیں ترقی ہوئی ، اسی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی ترقی اور بہتری آئی ۔ انہوںنے اس عشرے میں پرائیویٹ سکولوںمیں آغا خان ایجوکیشن سروس کی خدمات کو بھی سراہتے ہوئے کہاکہ دوردراز علاقوںمیں سکول ایجوکیشن کی فراہمی کے ساتھ معیار ی تعلیم میں بھی اس کا کردار نمایان ہے اور اس وقت چترال اور کوراغ میں ہائیر سیکنڈری سکول اپنی مثال آپ ہیں جوکہ بچوں اور بچیوں کے لئے الگ الگ قائم ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پشاور یونیورسٹی کا چترال کی تعلیمی ترقی میں بہت بڑا کردار ہے اور اس وقت چترال میں شعبہ تدریس سے منسلک 90فیصد سے ذیادہ نے اس جامعہ سے تعلیم حاصل کی ہیں۔ 1990ءکے عشرے میں چترال کے پشاور یونیورسٹی کی مختلف شعبہ جات میںنشستیں مخصوص کی گئیں اور ہر سال ایم ۔ اے اور ایم ۔ایس سی کی ڈگری لے کر آنے والوںکی اکثریت یہاں یا تو سرکاری سیکٹر میں شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوگئے اور کئی ایک نے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کھول دئیے جس سے تعلیم کا اشاریہ بڑہانے میں مدد ملی۔ پروفیسر اسرار الدین نے چترال یونیورسٹی کے قیام کو تعلیمی کا منتہا (zenith)قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس ادارے سے یہاں تعلیمی میدان میں انقلاب آئے گا ۔ انہوںنے کہاکہ قیام پاکستان کے وقت مغربی پاکستان میں صرف ایک ہی یونیورسٹی تھی اور کسی علاقے میں یونیورسٹی کا سب سے ذیادہ کردار ہوتا ہے اور یہاں یونیورسٹی کا قیام ایک خوش آئند بات اور چترال میں تعلیم کی تابناک مستقبل کا ضامن ہے۔
اس موقع پرپروفیسر حسام الدین،محمد یوسف شہزاد، سینئر وکلا ءعالم زیب ایڈوکیٹ، ساجد اللہ ایڈوکیٹ اور نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ، معروف سماجی کارکن عنایت اللہ اسیر ، صلاح الدین صالح، فرید احمد رضا، پروفیسر بشارت حسین، صادق اللہ صادق ،قاضی احمد حسین اور دوسروں نے مختلف سوالات پوچھے جن کاانہوںنے تفصیل سے جواب دیا۔
پروگرام کے موڈیریٹر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے مہمان کے خیالات اور پوچھے گئے سوالات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ 1938ءمیں سٹیٹ سکول کی سر ناصر الملک کے ہاتھوں افتتاح سے شروع ہونے والا سفر اب یونیورسٹی آف چترال کی قیام تک پہنچ گیا جوکہ تعلیمی ترقی کا اوج کمال ہے۔ انضمام سے پہلے کوالٹی کا دور تھا اب مقدار کا دور ہے اور کوالٹی میں کمی آگئی ہے، ڈگری اور سرٹیفیکیٹ تو ہیں لیکن ان کی کوئی value نہیں ہے۔ یورپ اور روس میں نظام تعلیم میں ان کی نظرئیے کو اس طرح شامل کیا گیا ہے کہ یہ انسان کی زندگی تک ناقابل تقسیم ہے لیکن ہماری نظام تعلیم میں اخلاقیات نام کی چیز برائے نام ہے اور ہرکوئی دوسروں کی قیمت پر اپنی بھلائی کا ہی سوچتا ہے۔نظام تعلیم میں ٹیکنالوجی کو کماحقہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے اور سی پیک منصوبے سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسکل (skill)ہی بنییادی پیمانہ ہوگا یعنی جس کے پاس جتنا ہنر ہے ، وہ اسی شرح سے مستفید ہوگا۔


پروگرام کے شروع میں ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے پروفیسر اسرار الدین کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ 1953ءمیں اسٹیٹ ہائی سکول چترال سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور اور پھر پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ کے مضمون میں ایم۔ ایس سی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ریاست چترال میں وزیر تجارت سمیت دوسرے انتظامی عہدوں پر فائز رہنے کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن چلے گئے جہاں لندن یونیورسٹی سے ایم۔ ایس سی کی ایک اور ڈگری حاصل کی اور پشاور یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ سے منسلک ہوگئے ۔ ان کا شمار بین الاقوامی سطح پر جغرافیہ دانوں میں ہوتا ہے اور وہ مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہے اور کئی بیرونی یونیورسٹیوں میں وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی کام کیا جوکہ ان کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پروگرام کے آخر میں چترال پریس کلب کے صدر ظہیر الدین نے پروفیسر اسرا ر الدین اور مہراکہ پروگرام میں آنے والے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں