تصوف کی تاریخ بہت قدیم اور موضوع نہایت وسیع ہے ،جسے چند سطروں ، پیراگراف یا صفات میں سمیٹناقطعی ناممکن ہے۔تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کی تعریف کرنے والا طبقہ تصوف کو حسن اخلاق، حسن اعمال، حسن احوال اور حسن نیت سے عبارت اورشریعت کے مطابق قرار دیتا ہے ۔جبکہ ایک طبقہ تکفیر اور توقیر کے باعث اِسے شریعت کے خلاف تصور کرتا ہے۔ابوھاشمؒ ، رابعہ بصریؒ ، بایزید بسطامیؒ ، جنید بغدادیؒ ، منصور بن حلاجؒ ، ابو القاسم قشیریؒ ، علی ہجویریؒ ، عبدالقادر جیلانیؒ ، معین الدین چشتیؒ ، فرید الدین عطارؒ ، ابن عربیؒ ،عبدالوھابؒ ، مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ،احمد اللہؒ کا شمار جلیل القدر صوفیاء کرام میں ہوتا ہے۔ آج تصوف اور صوفی ازم غیر مسلم ممالک میں اثرانداز ہو چکا ہے،غیر مسلم میں مھر بابا، مرشد سیموئل لویس، منوھر لال کانپوری، ارینا ٹویڈی، وؤگان لی اور کارول ویلینڈ صوفی ازم میں اپنا مقام حاصل کیا ۔ تبلیغ اسلام کے لئے برصغیر پاک و ہند میں صوفیاء اکرام کی خدمات کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔داتا گنج بخش ہجویریؒ ، شاہ رکن عالمؒ ، عبداللہ شاہ غازیؒ ، سلطان سخی سرورؒ ، بابا فرید گنج شکرؒ ، نظام الدین اولیاؒ ، شیخ بہاؤ الدین زکریاؒ ، معین الدین چشتیؒ ، مخدوم علاؤ الدین صابرؒ اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے اپنے کردار،اخلاق، تعلیمات سے اِس خطے میں جو اسلام کی شمع روشن کی اُسے کوئی طوفانِ باطل نہیں بجھا سکا ۔
نام تاریخ این خجتہ کتاب
وہ چہ زیباست روضہ اقطاب
صوفیاء اکرام اور تصوف پر کئی اہل قلم حضرات روحانیت کی آبپاری کیلئے ایمان افروز کتب تخلیق کر چکے ہیں ،انہی میں ایک مقبول ترین تصنیف ’’روضۃ الاقطاب‘‘ ہے جسے حضرت شیخ نظام الدین اولیاؒ کے حقیقی بھانجے صاحبزادے سید محمد بلاقؒ نے حضرت سید خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کی اور انکے مصاحبوں، عقیدت مندوں اور دوست و احباب سے اظہارِ عقیدت میں سینکڑوں برس پہلے فارسی زبان میں لکھی تھی۔ ’’روضۃ الاقطاب‘‘کی پہلی اور دوسری اشاعت فارسی زبان اور تیسری اشاعت قدیم اُردو زبان میں ۱۳۰۹ میں ہوئی ۔ چوتھی اشاعت میں ڈاکٹر فہیم کاظمی نے عصر حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، نظرثانی، آسان اردو میں تبدیلی و عنوان بندی کی ہے۔فہیم کاظمی کا خاندانی نام سید احمد فہیم کاظمی المعروف سید فہیم رضا چستی الکاظمی ہے ،اُردو لٹریچر میں پی ایچ ڈی ہیں ۔ماہر علم الانساب کے علاوہ چیئرمین فروغ ادب فاونڈیشن پاکستان، چیئرمین خواجہ غریب نواز فاونڈیشن پاکستان، منیجنگ ڈائریکٹر تہذیب انٹرنیشنل پبلیکیشنر کے حثیت سے بہت فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔انکی طبع شدہ تصانیف میں سلطان الہند ۲۰۱۳ پہلا ایڈیشن دوسرا ایڈیشن ۲۰۱۴، کرب شام ۱۹۹۹ اور شام سے پہلے ۲۰۰۰ میدان ادب میں بہت مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔جبکہ زیر طبع تصانیف میں شجرہ نور المعروف کوثر النبی ﷺ، مووت(شاعری) ، مسنون دعائیں اور وظائف و عملیات شامل ہیں۔جگنو انٹرنیشنل لاہور کے زیرِ اہتمام ’’روضہ الاقطاب‘‘ کی اشاعت میں شفیق مراد چیف ایگزیکٹیو شریف اکیڈمی جرمنی کی خصوصی معاونت شامل ہے ۔ اس دُرنایاب کے سات ابواب ہیں اور ہر باب علم کے خزانوں سے بھرپور اور ایمان افروز ہے۔سید نو شاد کاظمی نے اس کارِ خیر میں ڈاکٹر فہیم رضا چشتی و الکاظمی کی معاونت فرمائی، اس ضمن میں وہ کہتے ہیں’’ کہ میں ڈاکٹر سید فہیم رضا جشتی الکاظمی کا انتہائی مشکور وممنون ہوں جنہوں نے مجھے اس کتاب کو آسان اردو میں منتقل کرنے کا اہل سمجھا ۔میرے نزدیک مجھے کتاب لکھنے اور ترتیب دینے کی سعادت حضور خواجہ شمس الدین عظیمی کی شاگردی میں آنے کی وجہ سے ہوئی جنہوں نے پل پل میرے شعور کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بدلا اور اس قابل بنایا کہ میں دو حروف لکھنے کے قابل ہوا ہوں۔‘‘
اے شہنشاہِ ولایت خواجہ ءِ ہند الولی
یک نگاہِ گاہے گاہے ازطفیل پنجتنؑ
جگنو انٹرنیشنل کے زیراہتمام الحمراء ادبی بیٹھک ،دی مال ، لاہورمیں فہیم کاظمی کی تصنیف ’’روضۃ الاقطاب‘‘ کی تقریب اجراء کا انعقاد کیا گیا۔پیر طریقت، رہبرِ شریعت، شیخ الاسلام، پیر سیّد دیوان آلِ حبیب علی خاں، چیف آف سادات، کاظمی، چشتی، پاک و ہند، سجادہ نشین، حضرت خواجہ غریب نواز اجمیری کی زیرِ صدارت اس روحانی تقریب میں پیر مخدوم سید نفیس الحسن بخاری، سجادہ نشین چیئرمین صوفی ازم کونسل پاکستان واُچ شریف ٹرسٹ نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔جبکہموریشس میں مقیم معروف شاعر و ادیب اختر ہاشمی کو مہمان اعزاز کی حیثیتت سے مدعوکیا گیا تھا۔تقریب کا آغاز رب جلیل کے بابرکت نام سے ہوا جس کی سعادت نامو گولڈ میڈلسٹ قاری احمد ہاشمی نے حاصل کی جبکہ آپ ﷺ کے حضور اقدس شیراز مظہر قریشی نے پرُسوز آواز میں نعت کا ہدیہ عقیدت پیش کیا،نظامت کے فرائض تقریب کی منتظمِ اعلیٰ ایم زیڈ کنولؔ نے باحسنو خوبی سرانجام دیئے۔صدرمحفل پیرِسید آلِ حبیب علی خان کے بدستِ مبارک ڈاکٹر فہیم رضا کاظمی کی کتاب’ ’روضۃ الاقطاب‘‘ کی رونمائی عمل میں لائی گئی جس میں ایم زیڈ کنول، اختر ہاشمی، مقصود چغتائی نے بھی حصہ لیا۔مہمانان خصوصی کو جگنو انٹرنیشنل کی جانب سے پھولوں کے گلدستے بھی پیش کئے گئے۔
مقررین،جن میں اختر ہاشمی، مظہر قریشی، مظہر جعفری، جاوید شیدا احمد خیال، ممتاز راشد لاہوری، میجرخالد نصر،آفتاب خان، عزیز شیخ، یونس بھٹی اور مقصود چغتائی شامل تھے، نے اپنے پُرمغز اور بامعنی اظہار خیال میں کہا کہ ڈاکٹر فہیم رضا نے اس کتاب میں حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ کی اور اُن کے مزار کے احاطہ میں مدفون دیگر صاحبانِ کشف شخصیات کی زندگیوں کے پُرنور گوشوں سے پردہ اُٹھایا ہے۔شدت پسندی کے بڑھتے رحجان میں ایسی تصانیف کی اشد ضرورت ہے تا کہ دنیا کو پیغام پہنچے کہ اسلام امن کا دین ہے اور امن سے پھیلا ہے اور اس میں تشدد اورنفرت کی کوئی گنجائش نہیں ۔ضرورت ہے کہ اس کا انگلش مترجم بھی جلد منظر عام پر آئے ،انہوں نے ڈاکٹر فہیم رضا کو ’’روضہ الاقطاب‘‘ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کی اور ایم زیڈ کنول کی ادبی خدمات کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا۔
ایم زیڈ کنول نے فہیم رضا کی شخصیت اور ’’روضۃ الاقطاب‘‘ کے حوالے سے اپنے مقالے ’’راہِ سلوک کا مسافر۔ڈاکٹر فہیم رضا چشتی الکاظمی‘‘میں کہا کہ’’ ڈاکٹر فہیم رضا کاظمی تصوف و روحانیت کی عبا پہنے اپنی جستجوئے شوق اور جنون کو مہمیز دینے میں مصروف عمل ہیں۔شاعری ہو یا نثر وہ تصوف و روحانیت کا شہ پارہ ہے۔مدح محمدﷺ و آل محمدﷺ انکی شاعری کا مرغوب موضوع ہے۔ سید زادہ کا قلم اٹھتا ہے تو اپنے بزرگوں سے محبت کا قرض چکانے کے لئے۔مبارکباد کے مستحق ہیں سید فہیم رضا چشتی اور سعادتوں کے اس سفر پر ان کی ہمراہی کی سعادت حاصل کرنے والے ،سید نوشاد کاظمی جنہوں نے اس نافہم کو عام قابل فہم اردو کا پیرہن عطا کر کے جدید اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔مولا پاک اسے اِن کے لئے توشۂ آخرت بنا دے ۔آمین،‘‘
ڈاکٹر فہیم کاظمی نے اپنے اعزازاس تقریب کے انعقاد پر جگنو انٹرنیشنل کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا انہوں نے کتاب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صرف مقربانِ خاص کو خد اس نعمت عظیم سے نوازتا ہے اولیائے کرام ہی وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے صدق دل سے نور نبوت سے ارتباط حاصل کر کے تعلیمات نبویﷺ کی تفہیم حاصل کی ۔یہی وجہ ہے کہ تقریباً پندرہ سو سال گزرنے کے باوجود تصوف میں کسی قسم کے فرقے یا گروپ بندی کا شائبہ تک پیدا نہ ہو سکا۔یہ کتاب جو قدیم اردو زبان میں تھی اور جس میں متروک، ثقیل اور نامانوس الفاظ کی بھر مار تھی،برادرم سید نوشاد کاظمی کے تعاون سے اسے آج کی روزمرہ زبان کے قالب میں ڈھالا گیا ہے چیف ایگزیکٹو جگنو انٹرنیشنل ایم زیڈ کنولؔ کا بھی خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔جن کے بھرپور اور بے لوث تعاون نے انکی حوصلہ افزائی کی ۔
تقریب میں شگفتہ غزل ہاشمی، کرن ہاشمی،ڈاکٹر کنول فیروز، مفتی محمد عامر صابری ، میاں محمود، شیخ پرویز، نوشابہ پرویز، بشریٰ سحرین، ریاض جسٹس، شیراز ساغر، ناصر رضوی، پروفیسرنظر بھنڈر، میجر(ر) خالد نصر، محمد نعیم بٹ، حاجی عبدالرزاق، ظہور احمد بھٹہ، ابتساج ترابی، شہزادی اورنگزیب، لائبہ بخاری، محمود اے ترازی،حمیرا بخاری، عاصمہ، محمد یونس بھٹی،سمیت شاعروں ادیبوں طلبہ اور ممتاز ادبی و سماجی شخصیات نے شرکت کی ۔اذانِ مغرب کی صدا’’حی الاصلاح۔حی الفلاح‘‘ پر تقریب کو سمیٹنے اور بینر کو لپیٹنے کی تیاریاں کر لی گئیں۔صدرِ محفل پیرِسید آلِ حبیب علی خان نے دعائیخیر کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور ملک و ملت کے تحفظ ،دین اسلام کی سربلندی،ادبی بیٹھک کی رونقوں کے لئے خصوصی دعائیں کیگئیں۔ایم زیڈ کنولؔ ، چیف ایگزیکٹو، جگنو انٹر نیشنل نے اختتامیہ کلمات میں تمام مہمانان گرامی سے اظہارِ تشکر کیا ۔