216

دادبیداد۔۔۔بے چینی کیوں؟۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ایک دن کا اخبار بہت ساری بے چینی لیکر آتا ہے محکمہ صحت کے اندر بے چینی ہے یو نیورسٹی حکام بے چینی سے دو چار ہیں تا جر برادری بے چینی میں مبتلا ہے سیا سی ور کر بے چینی کا شکار ہیں سول سو سائیٹی بے چینی سے دو چار ہے میڈیا ہاوسز کو بے چینی کا سامنا ہے اور تازہ ترین خبر یہ ہے کہ سول بیورو کریسی میں بھی کھلبلی مچی ہو ئی ہے کیونکہ حکومت نے افسرو ں کی تر قی کے لئے حکمران جما عت کی غلا می کو لازمی قرار دینے کا بل تیار کیا ہوا ہے اس بل کا نام سول سروس میں اصلا حا ت کا بل ہے بل میں میرٹ، پر فارمنس اور ڈلیوری کے تین بے ضرر الفاظ ڈالنے کے بعد اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ حکمران جما عت کسی افیسر کی قابلیت، تجربہ اور ترقی کے معیار طے کریگی اس معیار پر پورا نہ اتر نے وا لا تر قی نہیں پا سکے گا جس طرح مغل ا عظم کا در بار تھا اسی طرح منتخب حکومت کا بھی ایک در بار ہو گا دربار میں جگہ پا نے کے لئے جی حضوری، خو شامد اور عا لیجاہ کی خد مت کو سب سے بڑی قابلیت تصور کیا جائے گا جن لو گوں نے وزیر اعظم عمران خان کے کان میں یہ بات کہی ہے وہ وزیر اعظم کا وفا دار ہر گز نہیں ہو سکتے وزیر اعظم نے عا لمی تا ریخ کا گہرا مطا لعہ کیا ہے انہیں پتہ ہے کہ مسو لینی، ہٹلر اور سٹا لن کو تاریخ میں کن بُرے الفاظ و القا ب سے یا د کیاجا تا ہے ان کے مقا بلے میں ابرا ہام لنکن، اور ونٹس چر چل کو کتنی عزت دی جا تی ہے ابراہام لنکن نے آ زادی اظہار کی پا سداری کی ونٹسن چر چل نے آزادی اظہار کو وقعت دی دونوں لیڈروں نے سول بیورو کریسی کو حکمرانوں کے جبر سے آزاد کیا قا نون کو ذاتی مفا دات سے با لا تر رکھا ان کے مقا بلے میں ہٹلر، سٹا لن اور مسو لینی نے آزادی اظہار پر قد غن لگا ئی سول بیورو کریسی کو حکمران جما عت کی غلا می پر مجبور کیا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ مین ان کو فا شسٹ کا لقب ملا فاشزم وہ طرز حکومت ہے جس میں ایک ڈکٹیٹر پورے ملک کواپنی ذاتی دوستی اور ذا تی دشمنی کی عینک سے دیکھتا ہے دوستوں کو دور دور سے بلا کر بڑے بڑے مفا دات اور اونچی مرا عات سے نواز تا ہے دشمنوں کو چُن چُن کر جیلوں میں ڈالتا ہے تا کہ ڈکٹیٹر کے سامنے کوئی رکا وٹ نہ رہے کوئی رکا وٹ نہ بنے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پا کستان کے بعد سول سروس کے افیسروں سے خطاب کرتے ہوئے تین بنیا دی باتوں کا ذکر کیا پہلی بات انہوں نے یہ کہی کہ تمہاری ہمدر دیاں وطن اور قوم کے ساتھ ہونی چا ہئیں کسی حکمران، اس کے خاندان یا اس کی پارٹی کے ساتھ ہر گز نہیں ہو نی چا ہئیں دوسری بات یہ کہی کہ تمہارا کام قانون کی پا سداری کرنا ہے جب تک حکمران قانون کی پاسداری کرے تب تک اس کا ساتھ دو، جب وہ قانون سے منہ پھرے تو ان کا ساتھ نہ دو، تیسری بات انہوں نے یہ کہی کہ حکمران آتے جا تے رہینگے یہ وطن، یہ ملک اس کا قانون اسی طرح قائم رہے گا حکمران کو خوش کرنے کے لئے قانون کو نہ توڑو اگر تم قا نون کو توڑ کر حکمران کو خوش کرنے کی کو شش کروگے تو تم اپنے منصب کے تقا ضوں سے منہ موڑنے والے بن جاؤ گے ہمارے ہاں اخبارات کو اپنی مٹھی میں رکھنے کے لئے آمرانہ حکومتیں مختلف ہتھکنڈے استعمال کر تی ہیں ان میں سے ایک ہتھکنڈا یہ ہے کہ سر کش اخبارات کو اشتہارات کی آمد نی سے محروم کیا جائے دوسرا ہتھکنڈہ یہ ہے کہ میڈیا ٹریبو نلز کے ذریعے اخبارات سے بھتہ وصول کیا جائے اخباری صنعت سے وابستہ لو گوں نے میڈیا ٹریبو نلز کو بھتہ خوری کا نیا حر بہ قرار دیا ہے اور گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا ہے سول سروس اصلا حا ت کے نا م پر ما ضی کے ڈکٹیٹروں نے دو طرح کے کام کئیے پہلا کام یہ ہوا کہ باہر سے کنسلٹنٹ لا کر ہر دفتر میں بٹھا یا گیا دفتر کے افیسرکو اگر مرا عات کی مد میں دو لاکھ روپے ملتے تھے تو کنسلٹنٹ کو 5لاکھ روپے ملنے لگے یہ ایک ظلم تھا جس کو جبر کے سایے میں بر داشت کیا گیا دوسرا ظلم یہ تھا کہ افیسر کی تر قی کے معیار کو بدل کر حکمرا ن جما عت کی غلا می کو لا زمی قرار دیا گیا گویا پرندے کو پر مار نے کی اجا زت نہیں ہوئی لیکن حا لات نے کبھی کسی ڈکٹیٹر کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ڈکٹیٹر کا نام مٹ گیا صحا فی اور افسر شا ہی کو گزند پہنچا نے والے اپنے انجام سے دو چار ہوئے مو جو دہ حا لات میں پا کستان تاریخ کے جس دوراہے پر کھڑا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ وطن کے اندر یکجہتی ہو سیا سیا سی طا قتوں میں ہم آہنگی ہو میڈ یا اور بیورو کریسی کو بھی ساتھ لے کر آگے بڑھا جائے اس بات کا ادراک وزیر اعظم عمران خان اور صدر عارف علوی کو سب سے ذیادہ ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں