199

داد بیداد۔۔۔۔ میرا یوسفی۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

عبدالواحد یوسفی مرحوم میرا یوسفی تھا۔اُن کی جدائی سے مجھے جو دُکھ اور صدمہ ہوا۔اس کا اظہار الفاظ میں نہیں ہوسکتا۔ایک داستان چاہیے اس بحر بیکراں کے لئے میرا یوسفی چند حوالوں سے منفرد اور ممتاز صحافی،منتظم،دوست،یار اور بے حد وفادار،وضعدار شخصیت کا مالک تھا۔ان کا دفتر بھی روشنی،نفاست اور وضعداری کا اعلیٰ نمونہ تھا۔جہاں وہ پیشہ ورانہ امور نمٹانے کے ساتھ ساتھ مہمانوں کی خاطر تواضع بھی کرتا ٹیلیفون بھی لے لیتا کسی مہمان یا فون ملانے والے کو کبھی یہ احساس نہیں دلایا کہ میں مصروف ہوں حالانکہ وہ پہلے اندرونی صفحات،ادارتی صفحہ،شہرکی خبریں،کالموں کی ترتیب وغیرہ خود دیکھتااور کارکنوں کی رہنمائی کرتا۔باربار دیکھنے کے بعد صفحات کو تیار کرواتا پھر اُن کے پاس صفحہ اول اور صفحہ آخر کی خبریں بھی شہ سرخی،دوسری شہ سرخی،تیسری بڑی سرخی،تصویریں لائی جاتیں،ایک ایک سرخی،ایک ایک تصویر اور تصویر کے ساتھ کیپشن کے مطابق ان میں کانٹ جھانٹ کرکے دیتا،پھر دوبارہ سہ بارہ دیکھتا اور تسلی کے بعد گرین سگنل دیدیتا۔اشتہارات اور خبروں میں توازن رکھنے کی ہدایت کرتا۔کیمرہ ریڈی کاپی کو بھی چیک کرکے آگے جانے دیتاتھا۔پاکستان انکی محبتوں کوکا محور تھا اور پشاور ان کی واحد کمزوری کا درجہ رکھتا تھا۔دونوں سے ٹوٹ کے محبت کرتا تھا۔ڈاکٹر سید امجد حسین،ڈاکٹر ظہور احمد اعوان،سید ظفرعلی شاہ،ڈاکٹر صلاح الدین اور ناصر علی سید کے ساتھ ان کی طویل دوستی میں پشاور کی محبت کا بڑا دخل تھا۔اخبار شہر آیا تو مجھ سے کہا کہ” شہر مشاہیر“کے عنوان سے پشاور کی چیدہ شخصیات پر لکھواور اسمیں چترال کی ایسی شخصیات کو بھی شامل کرو جنہوں نے پشاور کی خدمت کی ہے میںنے حکم کی تعمیل کی۔کالموں کا مجموعہ اب پریس میں جارہا ہے۔میرے ساتھ ملاقاتوں میں دوچیزوں کا خصوصی ذکر کرتے تھے۔پہلی خبر یہ تھی کہ اخبار میں گھرے ہر فرد کی دلچسپی کے لئے کوئی نہ کوئی صفحہ یا آدھا صفحہ ضرور ہونا چاہیئے تاکہ اخبار ہر گھر کی ضرورت ہو۔ایک دن میں ایبٹ آباد سے ہو آیا شام کویوسفی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو شکایت لگائی کہ ہری پور اور ایبٹ آباد میں 11بجے کے بعد روزنامہ آج ہاکروں کے پاس نہیں بچتا۔تیمر گرہ اور دیر میں12بجے اخبار ختم ہوجاتا ہے۔یوسفی صاحب نے پوچھا یہ شکایت ہے یا خراج تحسین ؟میں نے عرض کیا،کیا میں چاہتا ہوں کہ شام تک اخبار دستیاب ہونا چاہیئے۔یوسفی صاحب مسکراتے ہوئے بولے میں چاہتا ہوں کہ ہرشہر میں روزنامہ آج دوگھنٹوں کے اندر ختم ہوجاتے یہ اسکی مقبولیت اور قبولیت نشانی ہوگی۔ہم شام تک اخبار کو سٹال میں رکھواکر قطار میں کھڑا ہونا نہیں چاہتے۔میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میری شکایت میرے لئے تعلیم وتربیت کا ذریعہ بن گئی شکایت کو خراج تحسین میں بدل دیتا ہوں یوسفی صاحب ہنس پڑے بات کا رخ اداریہ اور شذرہ کی طرف موڑ دیا۔میں نے جو ادارے اور شذرے لکھے تھے ان کا ذکر کیا اداریہ اور شذرہ کا فرق واضح کیا۔1998میں انہوں نے کہا تھاکہ الیکٹرانک میڈیا آنے کے بعد ،تجزیہ نگاری،تبصرہ نگاری اور حالات حاضرہ کا مکمل احاطہ کرکے قارئین کو اپنے ساتھ رکھنے کی ضرورت ہے اخبار کے کالم مختصر ہوں مگر جامع ہوں تو قارئین پسند کرتے ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ ادارتی صفحے پر اداریہ اور شذرہ کے علاوہ کم از کم 9یا 10کالم آنے چاہئیں تاکہ رائے عامہ کی رہنمائی ہو اور رائے عامہ کی تشکیل میں ہمارا تھوڑا سا حصہ ہو ۔میں جب یوسفی صاحب سے ملتا وہ اخبار میں نئی چیز متعارف کرانے کا ذکر کرتے۔”آج کی بات“ ان میں سے ایک تھی میرا خیال ہے کہ انہوں نے اخبار کو قارئین کے لئے سب سے زیادہ قابل قبول بنانے اور سب سے پہلی ترجیح قرار دینے کے لئے جو منصوبے بنائے اپنی زندگی اور صحت کی حالت میں سب کو عملی جامہ پہناکر دکھایا۔کارکنوں کے ساتھ انکے محتانہ رویے کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ کہ کارکنوں کی تنخواہ کبھی مقررہ تاریخ سے ایک دن بھی موخر نہیں ہوتی تھی۔مقررہ تاریخ کو ہر ایک کے بینک اکاونٹ میں جمع ہوجاتی تھی۔میں اُن سے ملتا تو چترال میں روزنامہ آج کے نمائندے نورافضل کا حال احوال پوچھتے اور جب نور افضل اُ ن سے ملاقات کرتے تو میراحال احوال معلوم کرتے سلام دعا بھیجتے۔میرا یوسفی ایک شخصیت ایک فرد نہیں بلکہ ایک ادارہ ہے اور جب تک ادارہ زندہ ہے میرا یوسفی زندہ ہے۔مولانا رومیؒ،علامہ اقبالؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے روح کی زندگی کاواضح نقشہ کھینچا ہے۔زندگی کو”صبح دوام“ کہا ہے۔شاہ ولی اللہ ؒنے”حجتہ اللہ البالغہ“ میں روح رواں کو نسیمہ سے الگ کرکے لکھا ہے کہ روح روان اپنے گھر اور دفتر وغیرہ کے چکر لگاتی ہے اچھی حالت میں دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔مجھے یقین ہے میرا یوسفی روح روان کی صورت میں بھی زندہ ہے روزنامہ آج کی شکل میں بھی زندہ ہے۔
ہرگز نمبرد آنکہ دش زندہ شد بعش
ثبت اس ہر جریدہ عالم دوام ما

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں