OOOپاکستان جیسے ممالک جہاں ادارے کمزور اور شخصیات طاقتور ہیں یہاں کسی بھی وقت ان ہونی ہو سکتی ہے ہمارا کوئی حکمران آج تک اس خوف سے باہر نہیں نکلایہی وجہ ہے کہ موجودہ آرمی چیف اور ان کے پیش رو قوم کو یقین ہی دلاتے رہتے ہیں کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن بیشتر لوگوں کا دل ہے کہ مانتا ہی نہیں اسی لئے جب حکومت کے خلاف احتجاج کی کوئی دھانسو تحریک چلانے کا اعلان ہوتاہے وسوسے ہیں کہ امڈتے چلے آتے ہیں ان سے جان ہی نہیں چھوٹتی ہر پاکستانی کے دل میں خیال ضرور آتاہے اس کے پیچھے یقیناًفوج ہے جو وزیرِ اعظم کو فری ہینڈ نہیں دینا چاہتی ملک میں ایسے سیاستدانوں کی افراط ہے جو کسی بھی واقعہ ۔۔۔کسی بھی سانحہ پر ایڑیاں اٹھا اٹھا کردیکھتے ہیں فوج اب آئی کہ اب آئی پچھلے کئی سالوں سے ان کے من کی مراد بر نہیں آئی لیکن انہوں نے بھی امید کا دامن آج تک نہیں چھوڑا ۔۔اس کو کہتے ہیں استقامت۔۔۔آخر امیدپر دنیا قائم ہے جب آصف علی زرداری صدر تھے درجنوں لوگ انہیں روزانہ گھر بھیج کر سوتے تھے کئی ٹی وی اینکرز نے عجب کرپشن کی غضب کہانیاں سنا سناکرقوم کا ہاضمہ خراب کردیا لیکن پھر بھی کچھ نہ بنا۔۔ہمارے پیارے خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف نے
مک گیا تیرا شو مداری
گو زرداری ،گو زرداری
تحریک کے دوران جوشِ خطابت میں آصف علی زرداری بھاٹی چوک میں الٹکا لٹکانے کااعلان کیا لیکن وہ سب کی چھاتی پر مونگ دلتے ہوئے اپنے اقتدار کی مدت پوری کرگئے اور عجب کرپشن کی غضب کہانیوں کی باز گشت آج تک سنائی دے رہی ہے۔۔میاں نوازشریف نے حکومت بنائی تو اقتدارسے باہر سیاستدانوں نے انہیں ٹف ٹائم دینے کی کوشش تو بہت کی لیکن وہ ناکام رہے۔۔۔ نندی پور پاور پلانٹ سمیت کئی منصوبوں میں کرپشن کرپشن کا شور بھی سننے میں آرہا ہے ۔۔۔کچھ لوگوں کو اب بھی بوٹوں کی چاپ سنائی دے رہی ہے آج صرف عمران خان نے میاں نوازشریف حکومت کے خلاف ’’آڈھا‘‘لگا رکھاہے سابقہ صدر آصف علی زرداری بھی کبھی کبھار میاں نوازشریف کے خلاف دھانسو بیان داغ کر باسی کڑی میں ابال لانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتے ہیں ۔۔۔ کچھ عرصہ قبل شیخ الاسلام کی آمد کسی بھونچال سے کم نہیں تھی واقعی انہوں نے حکومت کو ہلاکررکھ دیاتھایعنی جو کام عمران خان یا شیخ رشید نہ کر سکے وہ طاہرالقادری نے کردکھایا اندر سے عمران خان انتہائی خوش تھے لیکن کھل کر منہاج القرآن والوں کا ساتھ اس لئے نہیں دیا کہ کہیں تمام کریڈٹ شیخ الاسلام نہ لے جائیں پھر ان دونوں کے درمیان بہترین کواڈی نیشن تھی بہرحال اپنے شیخ رشید ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتے رہے وہ عمران خان کے حلیف بھی تھے اور طاہرالقادری کے ساتھ بھی۔ میاں نوازشریف اس’’ یک نہ شد دو شد‘‘ میں پھنس کررہ ہی گئے تھے لیکن انہیں پیپلزپارٹی اوربلوچستان حکومت نے بچا لیا اور ملکی تاریخ کا پہلا اور آخری دھانسو قسم کے دھرنا کسی منطقی انجام کے بغیر تمت بالخیرہوگیا حالانکہ تحریکِ منہاج القرآن کے 14کارکنوں کی ہلاکت کے باعث عوام کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ تھیں یہ تو مشہور کہاوت ہے کہ سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا میاں شہبازشریف جن لوگوں سے مشاورت کیلئے تکیہ کرتے ہیں انہوں نے الٹے سیدھے مشورے دے کر خواہ مخواہ حالات خراب کر لئے تھے جس سے پنجاب گورنمنٹ کی نیک نامی متاثرہوئی سچی بات تو یہ ہے کہ بیرئیر ہٹانا اتنا بڑا ایشو نہیں تھا کہ درجنوں افرادکو سٹیٹ گولیاں ماردی جائیں عام آدمی بھی چیخ پڑاکہ اتنا ظلم تو بھارتی فوج نے کشمیریوں پر بھی نہیں کیا انہی دنوں میاں صاحب کے ایک قریبی ساتھی اور سابق وزیرِ با تدبیر رانا ثناء اللہ نے نیا ارشاد فرمایا کہ طاہر القادری کو ایک رات تھانے میں گذارنی پڑی تو صبح انقلاب بھول جائیں گے۔ حالانکہ کشیدہ ماحول میں ایسی باتیں کرنا جلتی پر تیل ڈالنے والی بات تھی عقل کے فیصلے جذبات سے کرنا کا منطقی انجام یقیناًا چھا نہیں ہوتا یہ تو میاں صاحب کی قسمت اچھی تھی ورنہ شیخ الاسلام ۔۔۔ عمران خان سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے تھے فلک نے ان کے اسلام آباد میں پہلے د ھرنے کا منظر بھی دیکھا تھا جب شدید سردی کے موسم میں تیز بارش میں بھی ہزاروں افراد اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوئے ۔۔۔ جبکہ تیسری بار وزیرِ اعظم بننے والے میاں نواز شریف نے کارکنوں کو’’قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘کا نعرہ لگانے سے منع کرتے ہوئے کہا تھا میں نے ایک بار قدم آگے بڑھایا پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہ تھا۔۔پاکستان جیسے ممالک جہاں ادارے کمزور اور شخصیات طاقتور ہیں یہاں کسی بھی وقت ان ہونی ہو سکتی ہے ہمارا کوئی حکمران آج تک اس خوف سے باہر نہیں نکلا یہی وجہ ہے کہ آج بھی حالات کے ستائے لوگ، مایوس سیاستدان اور اسی نوعیت کے حامل باریار فوج کی طرف دیکھتے ہیں یہ سب سیاسی و معاشرتی بے چینی کا سبب ہے میرے خیال اللہ تعالیٰ نے مسلم لیگ ن کو عوام کی خدمت کا پھر موقعہ دیاہے شاید اللہ میاں نوازشریف سے کوئی کام لیانا چاہتا ہے اس لئے اس موقعہ کوضائع کرنا کفرانِ نعمت ہوگاجب میاں نوازشریف کے ساتھی انہیں خوش کرنے کیلئے مظہرشاہ کے اندازمیں بڑھکیں مارتے ہیں تو نہ جانے کتنے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔سیاست میں مخالف کوبرداشت کرنا جمہوریت کا حسن کہلاتاہے طاہر القادری ، عمران خان اور شیخ رشید سب پاکستانی ہیں سب کے سب محبِ وطن۔۔ سیاست سب کا حق ہے آپ اپوزیشن میں ہوں مخالفین کو الٹا لٹکانے کی باتیں کریں وہ جائز ہے لوڈ شیڈنگ کی آڑمیں ٹینٹ آفس بنا کر شہر شہر دھرنے دیں یہ بھی جمہوریت کہلائے۔ اقتدارمیں ہوں تو اختلاف کی بنیادپرمخالفین کے خلاف ریاستی وسائل استعمال کرنا،تھانے میں رات گذارنے کی دھمکی دینا کیا یہ بھی جمہوریت ہے۔؟۔ چلیں دل پر ہاتھ رکھ کر خود فیصلہ کرلیں۔۔۔ سیاست میں طاقتور مخالفین نہ ہوں۔۔۔کوئی ٹف ٹائم نہ دے۔۔اپوزیشن حکومتی پالیسیوں پر احتجاج بھی نہ کرے یہ جمہوریت نہ ہوئی بادشاہت ہوگئی ۔۔۔ سیاست میں توازن کیلئے مخالفین کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرناپڑتاہے مرحوم غلام حیدر وائیں کہا کرتے تھے جس میں قوتِ برداشت نہ ہو اس کیلئے سیاست چھوڑ دینا زیادہ بہتر ہے۔پاکستان جیسے ممالک جہاں ادارے کمزور اور شخصیات طاقتور ہیں یہاں کسی بھی وقت ان ہونی ہو سکتی ہے ہمارا کوئی حکمران آج تک اس خوف سے باہر نہیں نکلا خوف سے باہر نکلنے کا ایک ہی نسخ�ۂ کیمیاہے کہ ملک میں ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہو۔۔ عوام کی ہر قسم کی محرومیاں ختم ہو جائیں۔۔۔ عدالتی انصاف سے معاشی و معاشرتی انصاف ہر کسی کی پہنچ میں ہو ۔۔ میاں صاحب آج موقعہ ہے عوام کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا ۔۔ کچھ کر گذرئیے ورنہ میٹرو، مالٹا ٹرین اور سڑکیں اپنے بڑے کارنامے نہیں کہ بندہ تاریخ میں امر ہوجائے۔