Mr. Jackson
@mrjackson
خواتین کا صفحہمضامین

برتری کی جنگ……. تحریر :ناہیدہ سیف ایڈوکیٹ

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اپنا کامیاب دورہ کر کے واپس جا چکے دورے کے دوران پارلیمنٹ کے دونوں سیشن سے اپنی خطاب میں ترکی اور پاکستان کے ساتھ لازوال دوستی اور دونوں ملکوں کے مذہبی تقافتی اور ہر دکھ درد میں ایک دوسرے کے ساتھ نبھانے کا نہ صرف تذکرہ کیا بلکہ کشمیر پر بھی
کھلے انداز میں پاکسان کا ساتھ دینے کا اعادہ کیا، اس سے پہلے بھی ملائیشیا اور ترکی نے واضح الفاظ میں کشمیر مسئلے پر خاص کر 370 ہٹانے کے بعد جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے بھارت کی مذمت کی تھی اگر اس دورے کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک کامیاب دورہ تو تھا ہی لیکن اس کے پیچھے بڑےمقاصد بھی کارفرما ہیں اس خطے کی صورتحال بدل رہی ہے نئے نئے کھلاڑی میدان میں اتر رہے ہیں ریجنل میدان بدل رہا ہے نئے بلاک بن رہے ہیں باشعور لیڈرشب اپنی قوموں کی تقدیر بدل رہے ہیں ان میں سب سے بڑا کامیاب مثال طیب اردگان کا ہی ہے کیسے اس بندے نے اپنے ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ترکی کی معیشت بری طرح بیٹھ چکی تھی آئی ایم ایف کے قرضے ایسے چڑھے ہوئے تھے کہ نکلنا محال تھا لیکن قوموں کو جب صحیح لیڈرشپ ملتی ہے تو ان کی تقریریں بدل جایا کرتی ہیں تین سال کے مختصر عرصے میں ترکی نے نہ صرف اپنے ملک کو قرضے کی دندل سے نکالا بھیج میں آئی ایم ایف کی بڑی کوشش رہی کہ کسی طرح ترکی دوبارہ ان سے قرض لے لیکن اردگان نے کہا چاہے کچھ بھی ہو جائے محجھے اب آئی ایم سے دوبارہ قرض نہیں لینا اور اس طرح اپنے ملک کو اپنے پائوں پہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گیا اب وہ آئی ایم ایف کو غریب ملکوں کی ڈیویلپمنٹ کے لیے غالبا پانچ ارب ڈالر دیتا ہے ، دنیا کی ہر باشعور لیڈرشپ یہ سمجھتی ہے کہ معاشی مظبوطی کے بغیر کسی ملک کی کوئی حیثیت نہیں نا اس کی بات کوئی سنے گا نا اقوام میں اس کی کوئی عزت حیثیت ہو گی بالکل اسی طرح جب اپ کسی بندے کا قرض دار ہو تو وہ مہینہ یا سال تک انتظار کرے گا اس کے بعد اپکا گھر گروی رکھوائے گا اور اس بندے کو دیکھ کر اپ کواپنا راستہ بھی تبدیل کرنا پڑے گا کیونکہ آپ اس کے قرض دار ہو ملکوں کی حالت بھی ایسی ہی ہوتی ہے آخر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی بھی کوئی حد ہوگی ہمارے سابقہ حکمرانوں نے قرض لے کر ٹماٹر اور آلو میں دس روپے کمی کر کے باقی اپنی تجوریاں ہی بھر لی ان کے نامی اور بے نامی جائیدادیں تو ترقی کرتی گئی لیکن اس ملک اور یہاں کے باشندوں کے ساتھ وہ کہلواڑ ہوتا گیا آج حال یہ ہے کہ آپ کشمیر کا مسئلہ جہاں بھی لے کر جاتے ہو آگے سے جواب ملتا ہے کہ جی اپ کی معیشت بہت کمزور ہے لہذا اپ صبر کرے لیڈرشپ کی بات کرو تو ابی احمد کا نام بھی لینا ضروری ہے اس قابل لیڈر نے ایتھوپیا جیسے بھوک ،افلاس کے مارے ملک کو آئی ایم ایف کے قرضوں سے رہائی اتنے کم عرصے میں کیسے دلائی ہم جیسے ملکوں کے حکمرانوں کو ان سے سبق سیکھنا چائیے ہر ملک اپنی معیشت کو مظبوط کر کے دنیا کے اقوام میں اپنی برتری کا سوچ رہا ہے ،جس ملک کی معیشت گر جائے اس ملک کو ایک نا ایک دن روس ہی بننا ہو گا جب آپ کی معیشت بیٹھ جاتی ہے تو اپ کسی بھی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں کر سکتے، اللہ عربوں کا بھلا کرے ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمارے برادر ممالک جن میں سعودی عرب سر فہرست ہے ہمیشہ بے لوث طریقے سے ہمارا ساتھ دیتا رہتا ہے سب سے پہلے ہم اس کے دروازے پہ جاتے ہیں اور بھی مسلم ممالک جاتے ہیں ان کی بھی فراخ دلی سے یہ لوگ مدد کرتے ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ ان کا تعلق ہمیشہ لازوال رہا ہے جو کہ کسی حکمران کے ساتھ نہیں ہمیشہ اس اسٹیٹ اور اس ملک کے عوام کے ساتھ رکھا ہے اور یہ بہت پرانی اور بہت مظبوط روحانی بنیاد پر کھڑی ہے پاکستان بننے کے بعد اقوام متحدہ میں قائداعظم کا انٹروڈکشن شاہ فیصل نے کیا تھا اور بنگلہ دیش کو تب تک سعودیہ نے تسلیم نہیں کیا جب تک پاکستان نے نہیں کیا ، اب بھی ہمارے بنکوں میں ہماری معیشت کی بہتری کے لیے ان کے پیسے پڑے ہیں اور تین سال تک ہمیں تیل کی سپلائی تک رسائی آسان کر دی ہے،اس کے علاوہ بھی ہر مشکل وقت میں انکا ہمیشہ ساتھ رہا عربوں کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ فلاحی کام جب کرتے ہی تو کبھی بھی اس کی پبلسٹی نہیں کرتے یہ ا نکا بہت بڑا پن ہے بڑے دل کے لوگ ہیں دنیا کے ہر جگہوں میں خاص کہ افریقہ میں سب سے زیادہ خیرات ان کی طرف سے جاتے ہیں لیکن کبھی بھی انکا شوشہ کر کے داد وصول نہیں کرتے ، یہاں تک ایران کے ساتھ کبھی ان کی نہیں بنی لیکن جب قدرتی آفات آتے ہیں تو سعودیز وہاں بھی کھلے دل سے اپنے بہن بھائیوں کی مدد کرتےہیں سعودیہ اور ایران کے درمیاں تنازعات ہمیشہ سے رہے ہیں بدقسمتی یہ ہے کہ یہ دونوں مسلم ممالک کی کبھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بنی یہ آج سے نہیں یہ فرقے کی جنگ بھی نہیں ہے یہ بر تری کی جنگ ہے اور بہت پرانی ہے ان کی تاریخ کو دیکھے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تنازعہ صدیوں سے چل رہا ہے ان کے شعراء ایک دوسرے پر طنز کے نشتر چلاتے آئے ہیں ایرانیوں کو اپنے پرشین ایمپائر ہونے کا زعم ہیں کہتے ہیں ہم قیصر ،کسرئ کے وارٹ ہیں تم ہو صحرا کے بدو ، ہم برتر ہیں اور مسلمانوں پر حکومت کا اختیار ہم کو ملنی چاہئے ،تو عرب ان کو جواب میں کہتے ہیں ہم سے پوچھتے ہو تو سنو ہم پیغمبروں کے وارث ،ہماری سرزمین مقدس، اللہ نے ہماری سر زمیں کو عزت بخشی اپنا گھر بنایا ، اور اس کی کنجی ہمارے ہاتھ میں تھاما دی، اپنا محبوب ہم میں سے چنا،جب تک دنیا قائم ہماری برتری قائم ،ہم ہیں مکہ مدینے والے، تم کون ہو آج کے بادشاہ کل کے فقیر، تمہاری حیثیت کیا ہےاوقات کیا ہے ،کوئی ہے روئے زمیں پر ہم جیسا،،تو یہ وہ جواب ہے جس پر اکر سب کو چھپ لگ جاتی ہے ،ایران اس برتری کے چکر میں ہمیشہ پراکسیز کا حصہ رہا جو اس ریجن کے لیے اس کی معیشت کے لیے تباہ کن رہا ہے اگرچہ دونوں ممالک کو اس بات کا ادراک تو ہے کہ کون ان کی لڑائی کروا کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ سعودیہ کے تنصیبات پر جب حملہ ہوا تو کچھ ممالک نے بہت کو شش کی کہ سعودیہ ایران پر حملے کے لیے راضی ہو جائے لیکن سعودیہ نے صبر ،تحمل کا مظاہرہ کیا اس طرح ایران نے جواب دیا کہ اگر اس پر حملہ کیا گیا تو وہ اسرائیل پر جوابی حملہ کرے گا کیونکہ وہ سعودیہ پر حملے کا سوچ بھی نہیں سکتا ظاہر ہے وہ سر زمیں ہر مسلمان کے لیے بہت مقدس ہے اور اس کی عزت ،آبرو کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض کیا گیا ،یہی وجہ ہے کہ تمام مسلمان ممالک کی فوج اس کی حفاظت کے لیے وہاں موجود ہے، ایران کی اپنی معیشت بھی بہت کمزور ہے اور مزید گر چکی ہے کچھ مہینے پہلے وہاں مہنگائی اور بےروزگاری کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر آگئے تھے پروٹسٹ کر رہے تھے لیکن سعودیہ کی معیشت بہت مظبوط ہے تیل کے علاوہ بھی اللہ نےان کو عزت،بلندی بخشی ہے مقدس زیارات اور عبادات کے لیے وہاں رہتی دنیا تک مسلمانوں کا آنا جانا رہے گااور وہاں جانا ہر ایک مسلمان کی دلی اور آخری خواہش ہوتی ہے، سعودیہ کا ایک بڑا انکم حج ،زیارات سے بھی ہے، یہ دو ممالک جو برتری کے میدان میں تھے ہی اب سلطنت عثمانیہ کا وارث کیسے پیچھے رہتا اپنی معیشت کو مظبوط کر کے اپنی قوم کو دنیا کے برابر میں کھڑا کرنے کے بعد اس دوڑ میں شامل ہو گیا تاریخ تو ان کے پاس بھی بہت مظبوط ہے ترکی ،میں ہوں جی سلطنت عثمانیہ کا وارث مسلمانوں پر حکمرانی کا حق مجھے ہے وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے پاس تقریبا 57 ممالک ہیں تو ا ن پہ اپنا اثر،رسوخ قائم کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے اب لگتا ایسا ہے کہ عرب اور عجم میں فاصلے بڑھ رہے ہیں کوالالمپور سمٹ اس کی ایک کڑی ہے جہاں سعودیہ نہ خود گیا بلکہ پاکستان کو بھی منع کیا سعودیہ عرب کا کہنا تھا کہ مجھے بتائے بغیر یہ سمٹ کیا گیا سعودی سفیر کا انٹرویو میں سن رہی تھی کہہ رہے تھے اسلام کوالالمپور اور انقرہ سے نہیں نکلا مکہ مدینے سے نکلا ہے لہذا یہ اگر مسلمانوں کی کوئی سمٹ تھی تو ہمیں پہلے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا ،اس سمٹ میں جانے سے منع کرنے پر پاکستان سعودیہ کے درمیان تھوڑے فاصلے آگئے پاکستان کہتا ہے کہ او آئی سی جو اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی بھیٹک ہے اس کا آفس ریاض میں ہے اور اس کی سربراہی میں سعودیہ کو وہی مقام حاصل ہے جو اقوام متحدہ میں امریکہ کو ،میں کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کیا جائے لیکن سعودیہ اس میں فلحال پہلو تہی کرتا نظر ا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اپنی ناراضگی کا اظہار کر چکا ہے انقرہ ،کوالالمپور اور تہران کا خیال ہے کہ او آئی سی مسلمانوں کے کسی کام کا نہیں رہا وہاں مسلمانوں کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہوتا لہذاہمیں اپنے مسائل کے حل کے لیے نیا بلاک تشکیل دینا چاہئے اور اسی ارادے سے اردگان اور مہاتیر برسر پیکار ہیں اور پاکستان کو اسی بلاک میں شامل کرنا چاہتے ہیں پاکستان کی بھی یہی خواہش ہے لیکن اپنی بری معیشت کی وجہ سے پھنسا ہوا ہے کسی پر انحصار کب تک کیا جا سکتا ہے موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج معیشت ہے ہمیں بحثیت قوم بھی یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ہمیں قرضہ لے کر اس ملک پر قرض ہی چڑھانا ہے یا اس ملک کو مظبوط کر کے معزز قوموں کے صف میں کھڑا کرنا ہے اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ بے ایمان اور کرپٹ لوگوں کی حوصلی شکنی کی چائے ،چائے وہ آپ کے ملک میں ہیں اپ کے صوبے میں آپ کے علاقے میں یا پھر آپ کے محلے میں ہو کیونکہ کرپشن بھی عروج پر ہو اور معیشت بھی بہتر ہو ، یہ کبھی نہیں ہو سکتا ،موجودہ حکمرانوں کو بھی نیت نیتی سے معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے چائیے بے شک ہم تین کی جگہ دو وقت کا کھانا کھائیں گے اگر ہمیں نظر آئے
کہ ہمارے ملک کی ڈائریکشن صحیح سمت جا رہی ہے اور ہماری معیشت بہتر ہو رہی ہے ، اور ہمارے حکمران بد دیانت، بے ایمان اور کرپٹ نہیں ہے اور اس ملک کے ساتھ مخلص ہے اس میں تو شک نہیں کہ خان صاحب بھوکے اورکرپٹ انسان نہیں ہیں ان کے دوروں سے ان کی طرز زندگی سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ وہ بے جا اخراجات کو نا پسند کرتے ہیں اور معیشت کی مظبوط کے لیے پر عزم ہیں اور اپنی ٹیم پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں اور سنا ہے وزراء،ممبرز کے حرکات اور کام کے لیے خفیہ اداروں کی مدد بھی لے رہے ہیں کہ کہیں بے ایمانی اور کرپشن میں ملوث نہ ہو اور ایکشن بھی لے رہے ہیں مشکل وقت تو ہے ، لیکن اس کے کچھ ثمرات بھی نظر آنے چائیے تاکہ لوگوں کو حوصلہ ہو ،بہرحال دنیا کے موجودہ تناظر میں مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے ایک دوسرے کے درمیان تلخیاں دور کر کے اپنے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ایک دوسرے سے برتری کی جنگ کی بجائے اس امت کی برتری کی فکر کرنی پڑے گی جن کے تعلق کو ملکوں سے سرحدوں سے بالاتر رکھا گیا جو ایک ہی امت ہے آقا (صلاللہ علیہ وسلم ) کو اپنی امت کے ان مسائل کا ادراک اس وقت بھی تھا فر مایا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں مگر صرف تقوی کی بنیاد پر ،تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ایک دوسرے کو مظبوط سے تھامے رکھو تمھاری مثال ایک جسم کی ہے کہ اس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو اس کی کرب اور شدت کو پورا جسم محسوس کرتا ہے،

Related Articles

Back to top button