373

وادی داریل کی تعلیم اور صحت کی صورتحال …… تحریر: ثمر خان ثمر

لگ بھگ پچاسی ہزار نفوس پر مشتمل داریل کا شمار گلگت بلتستان کی قدیم ترین وادیوں میں ہوتا ہے۔  اس بات کا اندازہ داریل کے مختلف مقامات سے برآمد ہونے والے نوادرات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ وادی کتنی پرانی تاریخ رکھتی ہے؟  پھوگچ یونیورسٹی یا  بدھ مت دور کی عبادت گاہ بھی اس بات کی شاہد ہے کہ یہ وادی قدیم زمانے سے  وجود آدم سے خالی نہیں رہی ہوگی۔ قدرتی  حسین مناظر کی یہاں فراوانی ہے ، ایسے ایسے دلچسپ اور خوبصورت مناظر ہیں کہ پہلی بار دیکھنے والا انسان مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔  ایک زمانہ تھا داریل “علاقہ غیر” سمجھا جاتا  تھا ، ایک روح فرسا تاثر دیا گیا تھا کہ یہ آدم خوروں کا مسکن ہے۔ یہاں انسان نہیں  وحشی جانور بستے ہیں جو ذرا ذرا سی بات پر چیر پھاڑنے پر اُتر آتے ہیں۔ یہ تاثر تب بھی صحیح نہیں تھا اور آج بھی غلط ہے۔ یہ بات درست ہے کہ داریل میں خاندانی دشمنیاں رہی ہیں اور اب بھی ان دشمنیوں سے معاشرہ پوری طرح  صاف نہیں ہوا ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ذاتی دشمنیوں میں ملوث لوگ مہمانوں کی قدر و منزلت اور خاطر تواضح نہیں جانتے۔  مہمان نوازی داریل کے لوگوں کی گھٹی میں شامل ہے اور یہی وہ صفت ہے جو اہلیان داریل کو گلگت بلتستان میں  ایک ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ جس جس نے  داریل کو اندر سے دیکھا ہے اور باشندگان داریل سے جس جس کا واسطہ اور تعلق رہا ہے وہ بخوبی جانتا ہے کہ میں غلط بیانی نہیں کرتا۔ مہمان کو یہ لوگ اپنی آن ، بان اور شان تصور کرتے ہیں اور مہمان پر اپنی جان نچھاور کرتے ہیں۔  ایک بار داریل  دیکھنے والا بس یہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔  لوگوں کا اخلاق ، مہمان نوازی اور حسین مناظر زندگی بھر اس کے دل و دماغ میں نقش ہو کر رہ جاتے ہیں۔  خوبصورت جھیلیں ، آبشاریں ہری بھری وادیاں ، جنگلی حیات سے لدے پھندے دیوہیکل پہاڑ۔ ایک ایک منظر سیاح کا من موہ لینے کے لئے کافی ہے۔ کھنبری داریل کی گرمائی چراگاہوں تک اگر سیاحوں کی رسائی ممکن ہو تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ لوگ کالام ، ناران اور بابوسر جیسے سیاحتی مقامات کو فراموش کر جائیں گے۔  فی الحال سڑک کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے یہ خوبصورت مقامات دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔یہ ایک مستقل کالم بن سکتا ہے  لیکن آج وادی داریل میں تعلیم اور صحت کے حوالے کچھ عرض کرنا مقصود ہے۔

تعلیم اور صحت دو اہم اور بنیادی ضروریات ہیں۔  ایک باشعور انسان کسی جگہ سکونت اختیار کرنے سے پیشتر سب سے پہلے یہ ملاحظہ فرماتا ہے کہ اس جگہ تعلیم اور صحت کی سہولیات کیسی ہیں؟ آیا وہ اس کے معیار پر پورا اُترتی ہیں یا نہیں۔   کیونکہ جب تک تعلیم اور صحت کا معیار مناسب نہ ہو پھر زندگی ہی ادھوری بن جاتی ہے۔ وادی داریل جو درجن بھر بڑے بڑے گاؤں اور بیسیوں مضافات پر مشتمل ایک گنجان آباد وادی ہے۔ اس وقت نو بوائز   ہائی اسکول بشمول ڈی ڈی او شپ کام کر رہے ہیں۔ ان  اسکولوں میں اساتذہ اور طلبہ کی تعداد کچھ یوں ہے :

1۔  ہائر سیکنڈری سکول گماری  24 اساتذہ  860 بچے   2۔  ہائی اسکول گیال اساتذہ 13  طلبہ 562  ، 3۔ ہائی اسکول پھوگچ  13 اساتذہ 446 بچے  ، 4۔ہائی اسکول سمیگال اساتذہ 16  طلبہ 600  ، 5۔ ہائی اسکول منیکال اساتذہ 18 طلبہ 700   ، 6۔ ہائی اسکول شاہی محل اساتذہ 13 طلبہ 756  ، 7۔ ہائی اسکول اسکول گبر اساتذہ اساتذہ 16 طلبہ 400 ،   8۔  ہائی اسکول ڈوڈشال اساتذہ  12 طلبہ 380   9۔ ہائی اسکول کھنبری اساتذہ 9 طلبہ 150۔  وادی میں ایک بوائز مڈل اسکول اور 27 بوائز پرائمری اسکول کام کر رہے ہیں۔ گورنمنٹ بوائز پبلک ہائی اسکول کی عمارت بالکل تیار ہے اور حالیہ دورہ داریل کے دوران وزیر اعلی گلگت بلتستان جناب خالد خورشید صاحب نے اس کا افتتاح بھی فرمایا ہے تاہم فی الحال یہ فنکشنل نہیں ہے۔ پوری وادی میں گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول صرف ایک ہے جو اس وقت فنکشنل ہے۔ اس اسکول کا قیام  1977 میں ہوا  اور وہ  اولین استانی ملازمت سے سبکدوش ہوگئی ہیں۔ اس وقت یہ اسکول دو استانیاں چلا رہی ہیں۔  اتنا قدیمی اسکول تاحال باؤنڈری وال اور کلاس رومز کی سہولت سے محروم ہے۔ ایک پراجیکٹ نے دو کمرے کسی زمانے میں بنائے تھے انہی کمروں میں اسکول چل رہا ہے جن کی حالت بھی اب ناگفتہ بہ ہے۔ اس اسکول کے علاوہ تین سیپ  ریگولر گرلز پرائمری اسکول موجود ہیں۔ تین عدد گرلز مڈل اسکولوں کی عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں لیکن فی الحال فنکشنل نہیں ہیں۔  قریباً 23 عدد ہوم گرلز پرائمری اسکول چل رہے ہیں ۔ وہ اسکول اپنی طرف سے بچیوں کو تعلیم دینے کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن لوگوں کا رجحان ان اسکولوں کی جانب کم ہی جاتا ہے اور دوسری طرف ان اسکولوں میں تعینات ٹیچنگ اسٹاف کو بروقت حق الخدمت بھی نہیں مل جاتا، پچھلے چھے مہینوں سے انہیں تنخواہیں نہیں ملیں ۔یہ بھی اپنے آپ میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ شنید ہے ان اسکولوں میں پڑھانے والی لیڈی ٹیچرز کو مستقل کرنے کی پالیسی بنائی جا رہی ہے اگر ایسا ہوا تو یہ اہلیان علاقہ کے لئے نیک شگون  ثابت ہوگا۔

مذکورہ بالا اعداد و شمار  سے یہ واضح ہے کہ وادی داریل میں اس وقت ‘میل ایجوکیشن” پر بہت زیادہ کام ہو رہا ہے۔ تعلیم کی جانب لوگوں کا رجحان روز بہ روز بڑھ رہا ہے اور اب تو اسکولوں میں بچے اس کثرت سے آرہے ہیں کہ اسکول اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ دامنی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ کئی مسائل ان اسکولوں میں ہیں،  کہیں کلاس رومز کی کمی ہے تو کہیں اساتذہ کی ، لیکن جو سب سے بڑا مسئلہ خصوصاً ہائی اسکولوں میں سائنس ٹیچرز کا فقدان ہے۔ داریل کے کسی بھی اسکول میں سائنس ٹیچر کی پوسٹ پر کوئی بھرتی ہی نہیں ہوا۔ سائنس کے مضامین اساتذہ پڑھاتے ہیں لیکن وہ اس پوسٹ پر نہیں ہیں۔ سائنس ٹیچرز لگانے کی اشد ضرورت ہے یا پھر سائنس پڑھانے والے اساتذہ کو مراعات دے کر یہ کمی پوری کی جا سکتی ہے۔ بہرحال  میل ایجوکیشن   بہترین انداز میں چالو ہے لیکن اصل پریشانی “فیمیل ایجوکیشن” سیکٹر میں ہے۔ فیمیل ایجوکیشن بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔  جو گرلز مڈل اسکول بن کر تیار ہوئے ہیں ان میں جلد سے جلد اسٹاف بھرتی کر کے تدریسی عمل جاری رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

اب آتے ہیں صحت کی جانب ،  داریل میں ایک سول ہسپتال ہے اور قریباً 18 چھوٹی بڑی ڈسپنسریاں موجود ہیں۔ سول ہسپتال میں صرف ایک میڈیکل آفیسر تعینات ہے جو آبادی کے لحاظ سے ناکافی ہے۔ یہ اکلوتا ڈاکٹر روزانہ اوسطاً ایک سو مریض دیکھتا ہے جو یقیناً کارگراں ہے۔ ایمرجنسی اور دیگر تمام کیسسز یہ اکلوتا ڈاکٹر سنبھالتا ہے۔ کم از کم ایک اور میڈیکل آفیسر کی اشد ضرورت ہے۔  لیڈی  ڈاکٹر کی پوسٹ موجود ہے لیکن ڈاکٹر غائب ہے۔ ایک ڈینٹل سرجن بھی اپنی خدمات بجا لارہا ہے۔ سول ہسپتال داریل  کا ڈی ڈی او شپ  ڈی ایچ او کے پاس ہے ۔ ڈی ڈی او کا اختیار سول ہسپتال داریل کے حوالے کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ہسپتال اپنے معاملات آزادانہ طور پر سرانجام دے سکے۔ داریل کی تمام ڈسپنسریاں پی پی ایچ آئی کی زیر نگرانی چل رہی ہیں ۔ ادویات پہنچانے کا انتظام بہ نسبت گورنمنٹ پی پی ایچ آئی کا سست ہے۔ سول ہسپتال داریل میں لیبارٹری موجود نہیں ہے ۔  لیب کی ضرورت ہے۔ اُمید رکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت تعلیم اور صحت کے شعبے میں حائل رکاوٹیں اور مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرکے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولت پہنچانے کی کوشش کرے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں