318

بڑھتی مہنگائی کا سدباب ضروری ہے۔۔۔تحریر: اریبہ گل

قوم مشاہدہ کرچکی ہے کہ وزیراعظم نے جب بھی مہنگائی کا نوٹس لیا ہے یا اس سلسلے میں کوئی میٹنگ میں شرکت کی ہے یا مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے کوئی کمیٹی بنائی ہے اس کے بعد مختلف اشیا خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے ہفتے وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد حسب معمول اپوزیشن پر سخت الزامات کی بارش کی اور اس کی قیادت کو چور، ڈاکو، کرپٹ اور دو نمبر کے خطاب دیے، ساتھ ہی ساتھ قوم کو یہ خوشخبری سنائی کہ معیشت بہتر ہورہی ہے، روپے کی قدر میں استحکام آرہا ہے، کرنٹ اکاؤنٹس خسارے کے بجائے سرپلس میں ہے لیکن سب سے زیادہ دباؤ مہنگائی کا ہے اور حکومت سوچ رہی ہے کہ مہنگائی کم کیسے کی جائے اور میرے لیے ڈھائی سال کا وقت بہت سخت تھا لیکن اب ہم مشکل وقت سے نکل آئے ہیں۔ برآمدات میں اضافے کے لیے پلاننگ کررہے ہیں، کسانوں کے لیے زبردست پیکیج لارہے ہیں اس قسم کی کئی لوریاں عوام کو دی گئی ہیں یہ وہی ہیں جن کا تجربہ عوام کو بار بار ہو چکا ہے۔
اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ نیپرا نے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 89 پیسے اضافہ کردیا ہے اس سے بجلی کے الیکٹرک کے علاوہ پورے ملک میں مزید مہنگی ہوگی۔ دوسری طرف عمران خان نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ مہنگی بجلی ہے جس کو مزید مہنگا کردیا گیا ہے۔ دوسری مثال یہ ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے 2 دن پہلے کنزیومر پرائس انڈکس (CPI) کی بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھتے ہوئے دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے جس میں اینٹی بائیوٹکس، وٹامنز، ذیابیطس کی ادویات وغیرہ شامل ہیں۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کے پاس ایک اختیار پٹرولیم مصنوعات میں نرخوں کا ہے۔ جیسے جیسے پٹرول اور ڈیزل کے ریٹ بڑھتے ہیں بار برداری کے اخراجات کے ساتھ مہنگائی بڑھتی ہے۔ ان مصنوعات پر 30 روپے فی لیٹر پٹرول لیوی کا نفاذ حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ گزشتہ دو مرتبہ جو پٹرول اور ڈیزل وغیرہ کی قیمتیں مستحکم رہیں اس کی اصل وجہ پٹرولیم لیوی میں مسلسل کمی ہے۔ لیکن ابھی بھی 12 روپے فی لیٹر حکومت اس مد میں وصول کررہی ہے۔ جب کہ گزشتہ 5 ماہ یعنی جولائی تا دسمبر اس مد میں حکومت 30 فی صد زیادہ ریونیو وصول کرچکی ہے جو 275 ارب روپے ہے۔ اب اگر حکومت واقعی مہنگائی کم کرنا چاہتی ہے تو فی الحال پٹرولیم لیوی کی وصولی آئندہ جون 2021ء تک معطل کردی جائے اور اس رقم کو کسی غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرکے پورا کرلیا جائے۔
دوسرا معاملہ جنرل سیلز ٹیکس کا ہے جو حکومت کے لیے ریونیو وصول کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ پاکستان میں جس کی شرح 17 فی صد ہے، دنیا میں اتنی بلند جی ایس ٹی کی شرح کہیں نہیں ہے۔ یہ ایف بی آر کی نااہلی ہے کہ اس نے مختلف مدات میں ڈائریکٹ ٹیکس وصول کرنے کی موثر کوششیں نہیں کیں اور عام صارفین سے 17 فی صد کے حساب سے سیلز ٹیکس لیا جارہا ہے۔ پچھلے بجٹ میں بے شمار کھانے پینے کی اشیا پر بھی سیلز ٹیکس لگایا گیا ہے۔ اس طرح اشیائے خورو نوش مہنگی ہوگئی ہیں اور یہ بھی مہنگائی میں اضافے کی اہم وجہ ہے۔ اب یا تو ان اشیا کو GST کی لسٹ سے نکال دیا جائے یا پھر اس ٹیکس کی شرح میں کمی کردی جائے۔ آج کل اگلے بجٹ کی تیاری کا معاملہ چل رہا ہے۔ وزارت خزانہ، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان وغیرہ اگلے بجٹ کے لیے تیاری میں میٹنگیں کررہے ہیں۔ سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کی تجاویز کو ان میٹنگوں کا حصہ بنایا جائے۔حال ہی میں حکومت نے برآمدی صنعتوں کو رعایتی نرخوں پر بجلی کی فراہمی روک دی ہے۔ اس سے جو برآمدات میں تھوڑا بہت اضافہ ہورہا تھا وہ متاثر ہوگا۔ برآمدی صنعتوں سے وابستہ لوگوں کے روزگار میں کمی آئے گی، روپے کی قدر پر دباؤ آئے گا۔ مزید یہ کہ وہ سرمایہ کاری جو ان بجلی کے نرخوں کو سامنے رکھ کر کی جارہی تھی وہ کم ہوجائے گی۔ ایک طرف حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت مستحکم ہورہی ہے، دوسری طرف ایسے ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جن سے ملک میں عدم استحکام آئے گا۔
٭٭٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں