324

بھارت سے تجارت اور مسئلہ کشمیر ۔۔۔۔۔ نغمہ حبیب

پاکستان اور بھارت دو ایسے بد قسمت ہمسایے ہیں جو باوجود وسائل ہونے کے ترقی کی دوڑ میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔یہ دونوں ایک دوسرے کے اچھے دوست بھی ہو سکتے ہیں اور اچھے تجارتی پارٹنرز بھی لیکن بد قسمتی سے ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط دشمنی ہے کہ چلی آرہی ہے اور اس ساری صورت حال کا ذمہ دار صرف اور صرف بھارت ہے جس نے پاکستان بنتے ہی اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔اس نے پاکستان کے حصے میں آنے والے اثاثے روکنے سے لے کر پانی روکنے تک کا ہر حربہ آزمایا کہ اس نو زائیدہ مملکت کو نقصان پہنچایا جائے لیکن سب سے بڑا نقصان جو اس نے پاکستان کو پہنچایا وہ مسلمان ریاست کشمیر پر قبضہ تھا۔ کشمیر کو قائداعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے کہ پنجاب اور سندھ کے میدانوں کو سیراب کرنے والے اور غلہ اُگانے والے سارے دریا ادھر ہی سے نکلتے ہیں یعنی پاکستان کی زیادہ تر زراعت کا دارومدار انہی دریاؤں پر ہے۔ ان ہی فصلوں کی وجہ سے پاکستان ایک زرعی ملک کہلاتا ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ جن اجناس کی پیداوار میں ہم دنیا کے سرفہرست ملکوں میں ہیں ملک میں انہی کی کمی پیدا کردی جاتی ہے جسیے کہ آج کل چینی اور کپاس کے معاملے میں ہے۔ چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور گنے کے ایک بڑے پیداواری ملک میں یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے کہ چینی کی قیمت کبھی کچھ اوپر نیچے سوروپے ہے۔ یہی حال کپاس کا ہے جس کی پیداوار میں ہم دنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں لیکن ہم منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ ہم اسے بھارت سے منگوائیں اور حال ہی میں ای سی سی یعنی اکنامک کو ارڈینشن کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ چینی اور کپاس کی صنعتوں کو سہارا رینے کے لیے ان اجناس کو بھارت سے درآمد کیا جائے۔یہ تجویز وزارت تجارت کی طرف سے آئی اور یاد رہے کہ وزارت تجارت کا قلمدان خود وزیراعظم کے پاس ہے یعنی خود وزیراعظم نے اس ساری صورت ِحال کو نظر انداز کیا جو مقبوضہ کشمیر میں ہے اور ساتھ ہی پانچ اگست 2019 کو کئے گئے بھارتی اقدامات کو بھی نظر انداز کیا گیاجس کے تحت بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو معطل کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا اور کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے دیا تھا اور جائیداد کی عام خرید و فروخت کی اجازت دے کر کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت کو تبدیل کرنے کی راہ ہموار کر دی تھی۔یہ درست ہے کہ آج کی دنیا معاشیات اور مفادات کی دنیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی زمین اور اپنے حق کا سودا کیا جائے۔کشمیر مذہبی، تاریخی اور جغرافیائی ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ ہے اور ہم یہ نعرہ بھی لگاتے ہیں کہ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور کرنا بھی نہیں چاہیئے تو پھر کیوں اس طرح کی تجویز پیش کی جاتی ہیں کیا ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت کئی بار ہمارے تجارتی سامان سے بھرے ہوئے ٹرک واہگہ بارڈر کے اس پار روک دیتا ہے اور یوں ہمیں نقصان پہنچاتا ہے وہ ہمارے پانی کو اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرتا ہے یعنی جب چاہے سیلابی پانی چھوڑ کر ہماری کھڑی فصلوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اور جب چاہے پانی روک کر ہمارے لہلہاتے کھیت اجاڑ دیتا ہے۔
یہاں ہماری حکومت کے ذمے جہاں اس طرح تجاویز پیش کرنے کی کوتاہی ہے وہیں منصوبہ بندی نہ کرنے کا گناہ بھی اس کے سر ہے کہ ان فصلوں کی کاشت کے لیے کثیر مقدارمیں رقبہ اور آب وہوا موجود ہونے کے باوجود ہم اس کی پیداوار کی کمی کی کاشکار ہیں اور یہاں ملکی مفادات کی بجائے ذاتی اور شخصی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں یعنی چینی کے بحران کو کئی مہینے گزرنے کے باوجود حل نہیں کیا جاسکا۔بار بار دعوے کئے گئے کہ چینی کی قیمتیں بڑھنے نہیں دی جائیں گی لیکن اس کے باوجود انہیں قابو نہیں کیا جاسکا اور ابھی تک عام آدمی کی پہنچ میں نہیں لایا جاسکا اور معاملہ یہاں تک پہنچا دیا گیا کہ ان اجناس کو بھارت سے درآمد کیا جائے۔پڑوسی سے تجارت ہمیشہ فائدہ مند اور سستی رہتی ہے کہ رسل ورسائل کے اخراجات کم پڑتے ہیں لیکن بھارت کے پاکستان کے لیے عزائم اور جذبات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے اور جب کہ ہم اپنی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت واہلیت رکھتے ہیں تو اسے کہیں سے بھی منگوانے کی بجائے گھر سے پورا کرنا چاہیے حکومت جو بہترین معاشی ٹیم رکھنے کی دعوے دار ہے اس کمی کو گھر سے ہی پورا کر کے مسئلہ حل کرلے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں