238

ملازم شہری بھی ہوتا ہے خاطرات:………… امیرجان حقانی

گلگت بلتستان حکومت نے سرکاری ملازمین کے متعلق پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر آنے کے حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اور  میڈیا میں اپنے خیالات و افکار  کے اظہار پر پابندی عائد کر دی۔مختلف اہل علم نے اس پر اپنے خیالات و خدشات کا اظہار کیا۔

برادرم عباس وفا نے بھی ایک قیمتی جملہ لکھا ہے۔مجھے اتنا اچھا لگا کہ احباب سے شیئر کرنے پر مجبور ہوا۔یوں سمجھیے کہ انہوں نے کوزے سےدریا بہایا ہے یا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔میں نے اس جملے کی تفصیل لکھ دی اس تفصیل پر ایک سنجیدہ مکالمہ شروع ہوا۔

عباس وفا لکھتے ہیں:

“ملازم صرف ملازم نہیں ایک شہری بھی ہوتا ہے.”

اس جملے کی تفصیل یہ ہے کہ ایک شہری سے اس کے آئینی و قانونی اور بنیادی حقوق نہیں چھینے جاسکتے ہیں۔ایک سرکاری ملازم(شہری) کو بھی اپنے فکر و نظر،علم، خیال، نظریہ، سوچ ،نالج اور دانش و حکمت کو قدیم و جدید ابلاغی ٹولز کو استعمال کرتے ہوئے دوسروں تک پہنچانے کا مکمل حق حاصل ہے۔اور یہ حق اس کو اس کی ریاست نے ایک سوشل کنٹریکٹ(آئین و دستور) کے ذریعے نہ صرف عطاء کیا ہے بلکہ اس کی پروٹیکشن کا اظہار بھی کیا ہے۔حکومت ریاست کا ایک  لازمی عنصر اور جز ہے۔ کوئی عنصر یا جز اپنے کل کی مخالفت کرہی نہیں سکتا ہے۔حکومت کا ریاست کے تسلیم کردہ حقوق  اور اسکی حفاظت کو نہ ماننا اور وائلیشن کرنا ہی غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔

آئین اور قانون کی خلاف ورزی نہ حکومت کرسکتی ہے نہ کوئی ادارہ  یا فرد کرسکتا ہے۔ہر ایک کو آئینی و قانونی حدود میں رہ کر چلنا ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں قانون اور آئین کی وائلیشن ہوتی ہے وہاں تنزلی لازم ہے اور ہمیں کسی صورت اپنے سماج اور ملک کو تنزلی کی طرف لے جانے سے گریز کرنا ہوگا۔اور بالخصوص عوامی اور جمہوری حکومتیں اپنے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق نہ صرف تسلیم کرتی ہیں بلکہ ہر حال میں ان کا حفاظت بھی کرتی ہیں۔ سو ہمیں جمہوری اقدار کو فروغ دینا ہوگا، شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا۔آئین کی بالادستی اور قانون و انصاف کی علمبرداری کو لازم پکڑنا ہوگا۔آئین اور قانون سے کوئی ادارہ، فرد یا ریاستی عنصر بالادست نہیں ہوتا۔سب اسی کے دائرے میں رہ کر امور چلانے کے پابند ہیں۔پلیز کوئی خود کو اکیسویں صدی میں ریاستی آئین سے بالادست نہ سمجھیے گا۔

ان مختصر گذارشات پر استاد یونس سروش نے شاندار انداز میں تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کیا۔بہت سے اہم نکات کی طرف توجہ مبذول کروائی ۔

وہ لکھتے ہیں:

“اہم پہلو کی نشاندہی کی ہے آپ نے مگر ملازم اور عام شہری کے دائرہُ اظہار میں کچھ فرق ضرور ہے جو کسی سرکاری عہدے پر تقرری کے ساتھ ہی  ملازم کے گرد کھنچ جاتا ہے۔ اس دائرے کا انحصار عہدے کی نوعیت پر ہے۔ ملازم ریاستی مشینری کا کل پرزہ ہے۔ ریاستی مشینری اس نظریے پر ڈیزائن کی گئی ہوتی ہے جس کی بنیاد پر  ملک یا ریاست  وجود میں آتی ہے ۔ یہ ڈیزائن متعدد پرتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر پرت کے ساتھ ایک ادارہ منسلک ہوتا ہے جو ریاست کی بقا، سلامتی اور خوشحالی کے لئے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ بعض ادارے ریاست کے اثاثوں کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔  الغرض ریاستی مشینری کے جملہ پرذے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فرائض بجا لاتے ہیں۔ جس سوشل کنٹریکٹ کے تحت کسی ملازم کی کسی عہدے پر تقرری عمل میں آتی ہے اس کنٹریکٹ میں اس کے حقوق و فرائض کی تفصیل موجود ہوتی ہے ۔ جانبین یعنی ریاستی ادارے اور ملازم جب کنٹریکٹ پر دستخط کرتے ہیں تو پھر اظہار رائے کے حوالے سے کافی سارے حقوق سے ملازم دستبردار ہوجاتا ہے یہ حقوق بعض صورتوں میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے دو سال بعد بحال ہوجاتے ہیں۔ اس کا انحصار عہدے کی نوعیت اور حساسیت پر ہے۔ مثلاً آپ دورانِ ملازمت کسی عوامی عہدے پر الیکشن نہیں لڑ سکتے ۔ اس کے لئے آپ کو رٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔ اسی طرح بحیثیت ملازم آپ ریاستی پالیسیوں پر تنقید نہیں کر سکتے۔ کسی سیاسی عہدے پر کام نہیں کر سکتے۔ کسی کی کھل کر الیکشن کمپین نہیں چلا سکتے وغیرہ وغیرہ۔

المختصر جس سوشل کنٹریکٹ کے تحت ایک بندہ ملازمت قبول کرتا ہے اسی کے تحت وہ کافی سارے ضابطوں اور بندھنوں میں بندھ جاتا ہے۔گویا ملازم آپے سے باہر نہیں ہو سکتا۔”

ڈاکٹر طاہر ممتاز نے اس کو انتہاہی اہم موضوع قرار دے کر اس پر علمی مکالمہ اور سیمنارز منعقد کرنے کی تجویز دی۔

وہ لکھتے ہیں:

“سرکاری ملازمین کا سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے محترم جناب امیر جان حقانی صاحب نے بحث چھیڑی ہے اور  محترم عباس وفا صاحب کا ایک اہم جملہ / نقطے کو آغاز بحث بنایا ہے کہ سرکاری ملازم بھی ایک شہری ہونے کی حیثیت سے آئینی طور پر اپنی رائے کے اظہار کا حق رکھتا ہے۔  میری بھی یہی رائے ہے اور میرا خیال ہے کہ سرکاری طور پر ایک  اینالیسسز / ریسرچ کیا جائے اور اس پر سیمنار منعقد کر کے شہریوں کو بتا دیا جائے کہ عوامی رائے اور اظہار آزادی سے کس کس ادرے کو ” کیا تکلیف ” ہے اور موجودہ ریاست کس حد تک سچ برداشت کر سکتی ہے۔

حقانی صاحب  اور عباس بھائی کی سوچ فرد اور ریاست کے مابین تعلق کے نہج کی بہترین وضاحت کر تی ہے۔ آئینی طور پر فرد اگر ریاست کے لئے کام کرتا ہو تو کسی طور اپنے اظہار رائے کے حقوق سے دستبردار نہیں ہوتا۔  بہت اچھی بحث چھیڑی ہے بھائی ۔ اس پر باقاعدہ سیمنار ہونی چاہیئے۔

جانے کس نے کہا ہے کہ جدید ریاست جبر کے تحت قائم ہے۔ فرد کو قانون کے تحت جتنا بھی حقوق کا تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو ریاست / حکومت نظریہ ضرورت یا نقص امن کو جواز بنا کر قدغنیں لگاتی آئی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ تیسری دنیا کا شہری آئینی حقوق کا رونا روتا آیا ہے مگر ریاست اس معاملے میں اور نظریہ رکھتی ہے جو انفرادی طور پر دی گئی آئینی حقوق کے ضد بھی ہو سکتے ہیں.

بہت سارے دیگر احباب نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔”

یہ ایک اہم عوامی ایشو ہے اس پر اہل علم و فکر کو آگاہی اور شعور دینا ہوگا ۔ عوام کا حق ہے کہ وہ اپنے بیسک رائٹس اچھی طرح سمجھ لیں اور اہل علم پر لازم ہے کہ وہ مکمل تفصیلات کیساتھ سمجھا دیں۔

اساتذ کرام اور اہل علم و قلم سرکاری ملازمین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے علمی و فکری خیالات کا اظہار اور اصلاح معاشرہ کے لئے حکومت سے تقریر و تحریر کی  اجازت نامہ  لے لیں۔میں جی بی کا پہلا سرکاری ملازم ہوں جس کے پاس اصلاحی تحریر و تقریر کے لئے NOC موجود ہے۔

اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں