216

ڈاکٹر یا قصائی۔۔۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

لا ہو ر کا مشہور و معروف پرائیوٹ ہسپتا ل مریضوں لواحقین ڈاکٹروں نرسوں اور عملے سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا انسان سیلا ب کی طرح یہاں امڈ آئے تھے یہاں پر انسانوں کا جیسے دریا بہہ رہا ہوں یوں لگ رہا تھا جیسے پورا لاہور یہاں ہی اکٹھا ہو گیا ہو لوگوں کی وضع قطع سے لگ رہا تھا کہ اہل لا ہور کے علاوہ پنجاب کے دور دراز کے علاقوں سے بھی لوگ یہاں مسیحائی کی تلاش میں آئے تھے ہسپتال کی انتظامیہ اور ڈاکٹر حضرات جلادوں کی طرح مریضوں کے جسموں کا قتل عام کر رہے تھے لواحقین بچارے ساری عمرکی پونجی اپنے پیا روں کی زندگی کے لئے لٹائے جا رہے تھے پنجاب کے دور دراز علا قوں سے آئے ہو ئے لوگ اپنی زمینیں مویشی اور زیوارت بیج کر بھیڑیا صفت ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھے ہو ئے تھے اہل لا ہور تو پر اعتماد طریقے سے آجا رہے تھے جبکہ دیہات سے آئے ہو ئے لو گ اپنا آپ لٹا کر بھی تحسین آمیز نظروں سے ڈاکٹروں کو دیکھ رہے تھے پیچارے اپنے لئے یہاں ایک اعزاز سمجھ رہے تھے ڈرے ڈرے سہمے سہمے لو گ قطار در قطار بیٹھے کھڑے نظر آرہے تھے ڈاکٹر تو ڈاکٹر چھو ٹا عملہ بھی اپنی لو ٹ ما ر میں مصروف تھا سادہ لو ح دیہاتی اِن خا کروبوں سیکو رٹی گارڈ وں اور گیٹ کیپروں کے ہا تھوں لٹ رہے تھے ڈاکٹر اور دوسرا عملہ فاتحانہ شان سے لوٹ ما ر میں مصروف تھا انسان کے دوروپ یہاں نظر آرہے تھے ایک تو انتظامیہ اورڈاکٹر جو اپنی اپنی آخرت بر باد کر نے پر تلے ہو ئے تھے دوسری طرف لو گ اپنے پیا روں کی سانسیں طو یل کر نے کے لئے سر دھڑ کی با زی لگا ئے ہو ئے تھے اکاد کا کو ئی مریض روتے دھاڑتے نظر آتے یہاں زندگی اور مو ت انسان کے دونوں روپ نظر آرہے تھے۔ میں کسی بیما ر کی بیما ر پر سی کے لیے یہاں آیا ہوا تھا مجھے ساتھ لا نے والے اِس انتظار میں تھے کہ کب اندر سے اجا زت ملے اور وہ مجھے لے کر اپنے مریض تک جا ئیں میں انتظار میں کھڑا مریضوں اور ان کے لوا حقین کو مشاہداتی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک میرے جاننے والا ایک شخص میرے پا س آیا اور بو لا سر آپ یہاں کیسے آئے ہو ئے ہیں میں نے بتا یا کسی کو ملنے تو وہ بولا سر میں بھی اپنے بھا ئی کو یہاں لے کر آیا ہوں جس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا پہلے تو وہ اِدھر ادھر ڈاکٹروں پھر سرکا ری ہسپتالوں کے چکر لگا تا آیا پھر ہمیں سر کا ری ہسپتا ل میں فرشتہ صفت ڈاکٹر مل گیا جو شام کو یہاں پریکٹس کر تا ہے اس کو ہما ری حالت پر ترس آگیا لہذا وہ ہمیں یہاں لے کر آگیا ہے اب ہما را مریض یہاں پر داخل ہے پیسے تو بہت لگ رہے ہیں لیکن پیسے بندہ کما تا کس لئے ہے جان ہے تو جہاں ہے ہم پیسے پانی کی طرح بہا رہے ہیں ہم نے ڈاکٹروں کو کہہ دیا ہے کہ پیسہ جتنا مرضی لگ جا ئے ہما رے مریض کو بچنا چاہیے اور سر آپ یہاں آئے ہیں تو پلیز ہما رے مریض کو بھی دیکھتے جا ئیں میں جس مریض سے ملنے آیا تھا ادھر ابھی دیر تھی اِس لیے میں اِس بندے کے ساتھ چل پڑا اس کے کمرے کی طرف جا تے ہو ئے راستے میں مجھے ایک جاننے والا ڈاکٹر مل گیا جو یہاں پر ہی کام کر تا تھا مجھے دیکھ کر بہت حیران اور خو ش ہوا اور میرے ساتھ ہی چل پڑا ہم باتوں کے دوران ہی مریض کے پرائیوٹ کمرے میں پہنچ گیا مریض کی ٹانگ ٹو ٹی ہو ئی تھی وہ مہنگے ترین کمرے میں آرام دہ بیڈ پر لیٹا ہوا تھا اس کی ٹا نگ پر پلستر چڑھا ہوا تھا۔ میرے ساتھ آئے ڈاکٹر نے اس کی رپو رٹس دیکھنی شروع کر دیں ساری رپو رٹیں دیکھنے کے بعد مریض سے با ت چیت اورایکسرے دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے میری طرف دیکھا اور مجھے اشارہ کیا کہ علیحدہ ہو کر میری بات سنیں ہم کمرے سے نکل کر با ہر راہداری میں آئے تو ڈاکٹر سر گو شی میں بو لا مریض کی ہڈی جڑ چکی ہے اب چند دنوں کے اندر اندر خو د ہی درد ختم ہو جا ئے گا یہاں پر ڈاکٹر صاحب نے اپنی لوٹ ما ر کے لیے مریض کو رکھا ہوا ہے اِس کو اب کسی بھی قسم کے علاج کی اب کو ئی ضرورت نہیں ہے کیو نکہ میں یہاں پر جاب کر تا ہوں اِس لیے میں یہ با ت کھل کر نہیں کر سکتا۔ بہتر یہی ہے کہ آپ مریض کو یہاں سے واپس لے جا ئیں اب یہاں اِس کا کسی قسم کا بھی علاج نہیں ہو رہا۔ اب صرف لو ٹ مار ہو رہی ہے۔ میں نے آکر مریض اور اس کے بھائی کو بتا یا کہ اب آپ گھر چلے جا ئیں اب آپ کو علاج کی ضرورت نہیں اب جب انہوں نے انتظا میہ سے کہا کہ ہمیں ڈسچارج کر دیں تو انتظا میہ نے صاف انکار کر دیا کہ اِس بات کا فیصلہ ڈاکٹر صاحب کریں گے جب ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی انکا ر کر دیا کہ بلکل بھی نہیں۔ ابھی آپ چند دنوں اور یہاں ٹہریں اس لیے کہ میں آپ کا علاج کر سکوں۔ اب میں اپنے دوست ڈاکٹر صاحب کے ساتھ دوسرے مریض کو ملنے گیا جس کی وجہ سے میں یہاں آیا تھا۔ اب ہم اس مریض کے پا س گئے جس کو ICUمیں رکھا گیا تھا ڈاکٹر صاحب نے جا تے ہی مریض کو پہچان لیا وہ پہلے سے اِ س مریض کو جانتے تھے لیکن ہما ری تسلی کے لیے رپورٹس پڑھنی شروع کر دیں مریض کو دماغ کی چوٹ لگی جس کی وجہ سے یہ پچھلے 10دن سے بیہو ش تھا جب لا ہور کے تما م سرکا ری ہسپتالوں نے اِس کو تقریبا مر دہ قرار دیا کہ اب یہ قابل علا ج نہیں ہے تو لو ٹ مار کے سپیشلسٹ اِس ہسپتال نے اِس مریض کو اپنے پاس داخل کر کے وینٹی لیٹر پر چڑھا دیا گا ں سے سادہ لو ح لو گ اِ س با ت پر ہی ڈاکٹروں اور ہسپتال انتظامیہ کو دعائیں دے رہے تھے کہ ہمیں تمام ڈاکٹروں اور ہسپتالوں نے جواب دے دیا تھا یہ ہسپتال والے کتنے اچھے ہیں ہمیں یہاں داخل کیا اوراب پچھلے کئی دن سے پو ری جان تو ڑ کو شش کر رہے ہیں مریض پر یہاں لو ٹ مار اپنے نقطہ عروج پر تھی لوا حقین تقریبا پندرہ لا کھ اِس مریض پر لگا چکے تھے اور لو ٹ مار کا یہ سلسلہ ابھی شرمندہ اور پریشان نظر آرہا تھا مجھے ایک طرف لے جا کر کہنے لگا سر میں اِس کیس کو پہلے سے جانتا ہوں یہ مریض ہما رے حسا ب سے مر چکا ہے دماغ اِس کا ڈیڈ ہو چکا ہے اب وینٹی لیٹر پر مصنو عی سانسوں پر اِس کو لٹکا یا ہوا جس دن لوا حقین کے پاس پیسے کم ختم ہو جا ئیں گے یا تھک جا ئیں گے تو یہ وینٹی لیٹر اتار کر لا ش ورثا کے حوا لے کر دیں گے کہ ہم نے تو پو ر ی کو شش کی ہے اب اللہ کو ہی منظور نہ تھا یہ ہسپتال بد نا م زمانہ جب لا ہور کے تمام ڈاکٹر اور ہسپتال مریض کو لینے سے انکا ر کر دیتے ہیں تو یہ مریض کو ویلکم کہتے ہیں مریض کے پیا رے اپنے آپ کو بیچ کر کہتے ہیں ہما رے مریض کو بچالیں جتنا پیسہ چاہیے ہم دیں گے پھر مریض کے گھر والے اپنی جائیدادیں زیوارت اور جمع پو نجی یہاں لٹا کر ڈیڈ با ڈی یہاں سے لے کر چلے جا تے ہیں یہاں پر کام کرنے والے ڈاکٹر مختلف سرکا ری ہسپتالوں سے مریض مرغیاں بنا کر یہاں لا تے ہیں اور پھر انہیں یہاں ذبح کر تے ہیں مظلوم مریض بیچارے ڈاکٹروں کو مسیحا سمجھ کر ان کی ہر بات مانتے ہیں کہ ڈاکٹر تو زندگی بچانے والے ہیں یہ ڈاکو تو ہو ہی نہیں سکتے اور یہ ڈاکٹر مسیحا کے روپ میں ڈکیتی کر تے ہیں اور پھر فخریہ انداز میں بیٹھ کر اپنی لو ٹ ما ر کے قصے لہک لہک کر سناتے ہیں ڈاکٹروں کو اچھی طرح پتہ ہو تا ہے کہ مریض اب مر چکا ہے لیکن یہ مر دہ انسان کے ساتھ لو ٹ ما ر کر تے ہیں مردہ انسان کے لواحقین کو جھوٹے خو اب دکھا کر ان کے روپے پیسے کو ہڑپ کر جاتے ہیں میں حیرت سے ڈاکٹر صاحب کی با توں کو سن رہا تھا اور آتے جا تے ڈاکٹروں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ اِن کو بلکل بھی احساس نہیں کہ انہوں نے بھی مر نا ہے اِن کے گھر والوں کو مرنا ہے روز محشر بھی بر پا ہو ناہے ہر عمل کا جواب دہ ہو نا ہے اِن کو خدا رسول مذہب اخلا قیات کا بلکل بھی احساس نہیں فطرت کے اِس اصول کا احساس نہیں کہ جیسا کر گے ویسا بھرو گے مجھے اچانک لگا میں بہت بڑے ذبح خانے میں ہوں جلاد بے دردی سے زندہ انسانوں سے گا جر مو لی کی طرح کا ٹ رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں