295

ریشمی دھاگے…….ڈاکٹر شاکرہ نندنی

صاحب اب میرا کام ہو جائے گا ناں؟ اُس نے دیوار کی طرف رخ موڑا اور تیزی سے کپڑے پہننے لگی۔ ہاں ہاں بھئی ہو جائے گا۔ میری سانسیں اب بھی بے ترتیب تھیں۔ پھر میں پیسے لینے کب آؤں؟ دوپٹے سے اس نے منہ پونچھا اورپھر جھٹک کر لپیٹ لیا۔پیسے ملنے تک تو تمہیں ایک دو چکر اور لگانے پڑیں گے۔ کل ہی میں مالکان سے تمہارے شوہر کا ذکر کرتا ہوں۔ میں نے شرٹ کے بٹن لگائے۔

ہاتھوں سے بال سنوارے اور دفتر کے پیچھے ریٹائرنگ روم سے باہراحتیاط کے طور پر ایک طائرانہ نظر دوڑانے لگا۔ ویسے تو دفتر کا چوکیدار مجھ سے چائے پانی کے پیسے لے کر میرا خیرخواہ ہی تھا لیکن میں کسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔
پھر میں کل ہی آ جاؤں؟ وہ میرے پختہ جواب کی منتظر تھی۔ نہیں کل نہیں!!! میں اس روز یہاں آ نے کا رسک نہیں لے سکتا تھا اس لئے بس آہ بھر کر رہ گیا۔ ہائے غریبوں کو بھی کیسے کیسے لعل مل جاتے ہیں ۔ میں نظروں سے اس کے جسم کے پیچ و خم کو تولنے لگا۔ ارے سنو!! تم نے شلوار الٹی پہنی ہے۔ وہ چونک کر اپنی ٹانگوں کی طرف جھکی اور پریشان ہو گئی۔ اسے اتار کر سیدھی پہن لو۔ میں چلتا ہوں میرے پانچ منٹ بعد تم بھی پچھلے دروازے سے نکل جانا۔ اور ہاں! احتیاط سے جانا کوئی دیکھ نہ لے تمہیں۔

مُنوخان چار سال سے ہماری فیکٹری میں رات کا چوکیدار تھا۔ دو مہینے پہلے ڈاکوؤں کے ساتھ مزاحمت کے دوران اسے ٹانگ پر گولی لگی اور اب بستر پر لاچار پڑا تھا۔ فیکٹری کے مالکان اس کی امداد کے لئے پچاس ہزار روپے دینے کا اعلان کر کے بھول چکے تھے۔ اس کی بیوی اسی سلسلے میں بار بار چکر لگا رہی تھی۔ میں نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور چھٹی کے بعد شام کو اسے فیکٹری آنے کا اشارہ دیا۔

نجیب! اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے عقب سے مجھے اپنی بیوی کی آواز سنائی دی۔ اس کے اور میرے گھر آنے کا وقت ایک ہی تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے بینک میں کلرک تھی۔ ایک خوشخبری ہے نجیب، وہ تیزی سے اوپر آ رہی تھی۔ خوشی سے اسکی باچھیں کھل رہی تھیں۔

مینیجر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں اور آج ہی انہوں نے میرے پروموشن کی بات کی ہے۔ دروازے کے سامنے اس نے ہینڈ بیگ ٹٹولا اور چابی نکال کر کہنے لگی، انہوں نے کہا تھوڑا وقت لگے گا مگر کام ہو جائے گا۔

ارے واہ مبارک ہو۔ میں نے خوشدلی سے اسے مبارکباد دی۔

تمہیں معلوم ہے مجھ سمیت پانچ امیدوار ہیں مگر ڈائریکٹر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں۔ کیوں نہ ہوں میں محنت جو اتنی کرتی ہوں۔ وہ اندر داخل ہوتے ہوئے بھی مسلسل بولے جا رہی تھی۔

میں اسکی پیروی کرتے ہوئے اس کی فتح کی داستان سے محظوظ ہو رہا تھا کہ۔۔
اچا نک میری نظر اسکی الٹی شلوار کے ریشمی دھاگوں سے الجھ گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں