قوم کو بیدار کیجئے ……………….عطاء الرحمن چوہان

آج پاکستانی معاشرہ بدترین غلامی سے دوچار ہے۔ جس کے نتیجے میں بائیس کروڑ انسانوں کے سوچنے، پرکھنے اور تجزیہ کرنے کا بنیادی معیار ہی بدل چکا ہے۔ یہ دراصل انگریز سامراج کی صدیوں کی غلامی کے اثرات ہیں۔ انگریز سامراج کو جب دھونس، دھاندلی، طاقت اور تسلط کے سارے ہتھکنڈے آزمانے کے باوجود برصغیر کے باشندوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنانے میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے اپنے دانشوروں کے سامنے یہ مشکل پیش کی۔ اس وقت برطانیہ کے ممتاز دانشور (لارڈ) میکالے نے برصغیر کا کئی سالوں پر محیط تفصیلی دورہ کرکے یہ تجویز کیا کہ جب تک اس قوم کو اپنی تہذیب، تمدن اور مذہب سے بیگانہ کرکے ایک ایسے نصاب اور نظام تعلیم سے نہیں گزارا جاتا جس کے نتیجے میں وہ شکل وصورت میں ہندوستانی ہوں لیکن فکر و عمل میں وہ خالص برطانوی ہوں، ہم ان پر زیادہ دیر قابض نہیں رہ سکتے۔ برطانوی حکومت نے لامحدود مالی وسائل کے ساتھ لارڈ میکالے کو اس منصوبے پر کام کرنے کا مکمل اختیار دیا۔
جب لارڈ میکالے نے برصغیر میں اپنے جوہر دکھانے شروع کیے تو جگہ جگہ سے مزاحمت کا سامنا ہوا، وہ ہر مشکل کو بھرپور اختیارات اور مالی وسائل سے دور کرتا گیا۔ ایک موقعہ ایسا آیا کہ انہوں نے برصغیر سے بہادری اور علم کے سارے منبع کو خشک کرنے کے لیے طے کیا کہ خطے سے ذاتی ہتھیار، عربی، فارسی اور اردو کی ساری کتب خرید کر تلف کردی جائیں۔ تب انہوں نے فی ہتھیار تین آنے اور فی کتاب چھ آنے ریٹ مقرر کرکے برصغیر سے سارا علمی خزانہ اور ہتھیار جمع کرلیے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں شرح خواندگی نوے فیصد تھا۔ علمی ذخیرہ تلف کرنے کے بعد تمام مقامی مدارس بند کرکے انگلش میڈیم تعلیمی اداروں میں اپنا تیار کردہ نصاب رائج کردیا۔ بیس سالوں بعد انہیں اس کے ثمرات ملنے شروع ہوئے اور اس کے بدترین نتائج آج بھی برصغیر کے عوام بھگت رہے ہیں۔
عالمی سیاسی حالات کی وجہ سے 1947میں انگریزوں کو برصغیر سے نکلنا پڑا۔ وہ خود تو چلے گئے لیکن اپنے پیچھے وہ کالے انگریز بابو، مراعات یافتہ جاگیردار، گدی نشین، علماء، شعراء، ادیب، نواب بہادر، خان صاحب، سر اور سرپنچ چھوڑے گئے جو باشندگان کو غلامی کے چنگل میں پھنسائے رکھیں۔ اس ساری سازش کے نتیجے میں عوام کو سوچنے، سمجھنے اور عمل کے سارے معیارات بدل چکے تھے۔ انگریزی زبان اور تہذیب عزت و وقار کی علامت بن چکے تھے۔ پڑھے لکھے لوگ سو فیصد انگریز لباس پہنتے تھے اور جو لوگ خود پینٹ کوٹ نہ بھی پہنتے ہوں وہ بھی انگریزی لباس میں ملبوس فرد کو عزت و احترام دیتے تھے۔ پچھتر سال گذرنے کے باوجود برصغیر میں اچھائی و برائی، عزت و توقیر اور سٹیٹس کے وہی معیار موجود اور قائم ہیں جو لارڈ میکالے چاہتا تھا۔
اس تہذیبی غلبے نے برصغیر سے دینی حمیت، ملی غیرت اور مقامی اقدار کا جنازہ نکال دیا۔ ہمارے بزرگوں نے پاکستان تو حاصل کرلیا لیکن صدیوں کی غلامی اور لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے بداثرات سے تیار ہونے والی نسل کی فکر تربیت نہ کرسکے۔ علامہ اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح، چوہدری رحمت علی اور ان جیسے قائدین قیام پاکستان کے ساتھ ہی رخصت ہوگئے اور ملک کی بھاگ ڈور ان کالے انگریزوں کے ہاتھ میں آگئی جو شکل و صورت میں مقامی اور فکر ونظر میں خالص برطانوی تھے۔ یہ معاملہ سرکاری منشیوں (بیوروکریٹ اور ملٹری افسران) تک محدود نہیں تھا بلکہ علماء، وکلاء، تاجر، جاگیردار، دانشور، ادیب، شعراء، سیاستدانوں اور عوام سب ہی مکمل طور پر انگریزی تہذیب و تمدن کے پیروکار تھے۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی اقدار اور سماجی روایات تک سے لاپروا ہوچکے تھے۔ آج پون صدی گزرنے کے باوجود صدر مملکت سے ریڑھی بان تک ہر فرد انگریزی زبان کو ترقی اور کامیابی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ مغربی لباس کو باعث تکریم خیال کرتا ہے اور ہر پاکستانی بغیر سوچے سمجھے وہی کچھ کررہا ہے جو لارڈ میکالے چاہتا تھا۔ جسمانی غلامی کے اثرات تو چند سالوں میں ختم ہو جاتے ہیں لیکن ذہنی غلامی اس وقت تک نہیں جاتی جب تک زنگ آلودہ لوہے کو بڑھکتی آگ کی بھٹیوں سے بار بار جلانے اور سٹیل پالش نہ کیا جائے۔
آج جو لوگ قومی زبان کے نفاذ کی جدو جہد کررہے ہیں وہ قائد اعظم کے سپاہی اور حقیقی پاکستانی ہیں۔ ان کے علاؤہ بائیس کروڑ لوگ محض کچرا ہیں۔ ہمیں اس کچرے کو قومی غیرت کی بھٹی سے گزار کر فکری تبدیلی سے گزارنا ہے۔ یہ کام چند دنوں کا نہیں بلکہ کئی سالوں کا ہے۔ قومیں سڑکوں، بلڈنگوں، یونیورسٹیوں، سکولوں اور مدارس سے نہیں فکری بنیادوں کو از سر نو کھڑی کرنے سے بنتی ہیں۔ جو منتخب افراد قومی غیرت سے سرشار ہیں وہی اس قوم کا اثاثہ ہے اور وہی اس ذہنی غلامی کا شکار کروڑوں انسانوں کو ایک ملت اور قوم بنا سکتے ہے۔
اٹھیے، کمربستہ ہوجائیں، کل نہیں آج ہی اس کام کا آغاز کیجئے۔ یہ کام خالص جہاد فی سبیل اللہ ہے اور اس راہ پر اٹھنے والا ہر قدم، ہر لمحہ اور ہر پیسہ جہاد پر صرف ہونے کے مترادف ہے۔ اٹھیے، کروڑوں ذہنی غلاموں اور اپاہج انسانوں کو شعوری مسلمان اور غیرت مند پاکستانی بنانے کے لیے جہاد کا آغاز کیجئے۔
تحریک نفاذ اردو پاکستان


