304

ہزاروں ہی شکوے ہیں۔۔۔۔ پروفیسررفعت مظہر

ایک شخص جس نے 22 سال ”شیروانی“ کے حصول کے لیے جدوجہد کی، اُسے صرف ساڑھے 3 سالوں میں ہی کان سے پکڑ کر نکال دیا گیا حالانکہ بقول تحریکیے وہ مضبوط اتنا تھا کہ اُسے نکالنے کے لیے امریکی صدر جوبائیڈن کو باقاعدہ سازش رچانی پڑی۔ اُن کے نزدیک یہ سازش اُن کے ہیرو کے خلاف اِس لیے رچائی گئی کہ وہ عالمِ اسلام کا واحد قائد بن کر سامنے آیا تھا۔ جبکہ لیگئیے طنزاََ کہتے ہیں کہ وہ ایسا قائد تھا جس نے معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے کٹوں، وچھوں، مرغیوں اور انڈوں جیسا لاجواب فارمولا دیا جو صرف امریکہ ہی نہیں، چین کو بھی منظور نہیں تھا کیونکہ یہ ممالک پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اِن ساڑھے 3 سالوں میں چین نے سی پیک پر ایک ڈالر بھی خرچ نہیں کیا اور امریکہ نے تو اُس کی چھٹی ہی کروا دی۔ لوگ کپتان کو مغرورومتکبر اور نرگسیت کا شکار سمجھتے ہیں جبکہ دوسری طرف کپتان کہتا ہے کہ ”اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی نہ خوش“۔ اُس کو یہ گلہ بھی کہ اُسے عدلیہ اچھی ملی نہ انتظامیہ، ساتھی اچھے ملے نہ عوام، اسٹیبلشمنٹ اچھی ملی نہ میڈیا۔ کئی بار اُس نے حسرتوں کے جلو میں اُن لوگوں کا ذکر کیا جو ہمہ مقتدر ہیں۔ وہ سعودی عرب کے کراؤن پرنس محمد بن سلمان جیسا اقتدار چاہتے تھے جس کے اشارہئ ابرو سے سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے لیکن اُس کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ پارلیمانی جمہوریت تھی جس نے اُسے پابندِسلاسل کیا ہوا تھا۔ سابقہ اپوزیشن کی اُس کے بارے میں سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے گنبد میں گُم ایسا شخص ہے جس کی نگاہوں میں اپنی ذات کے سوا کوئی جچتا ہی نہیں۔ وہ اپنے سوا سبھی کو کم عقل وکم فہم سمجھتاہے۔ اِسی لیے وہ بات بات پر کہتا ہے ”۔۔۔۔ کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا“۔ حیرت مگر اُس وقت ہوئی جب وہ تلوار سونت کر ”فرح گوگی“ کی حمایت میں نکل کھڑا ہوا جبکہ فرح گوگی خود سامنے آئی نہ اپنے دفاع میں کچھ بولی۔
فرح گوگی کی عجب کہانی ہے کہ چند سال پہلے تک اُسے کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ اُس کا نام پہلی بار اُس وقت سامنے آیا جب عمران خاں اور بشریٰ بی بی کی اُس کے گھر میں نکاح کی تقریب ہوئی۔ اُس کے بعد بھی اُس کی پہچان بشریٰ بی بی کی دوست کے طور پر ہی رہی لیکن جب اُس کی دولت قلانچیں بھرنے لگی تب لوگ اُس کی طرف متوجہ ہوئے۔ پھر پتہ چلا کہ عمران خاں کے دَورِحکومت کے محض 3 سالوں میں اُس کی دولت 3 کروڑ روپے سے 89 کروڑ تک جا پہنچی۔ پھر دھیرے دھیرے راز افشا ہونا شروع ہوئے تو سامنے حیرتوں کاایک جہاں آبادتھا۔ اُس کے 40 سے زیادہ اکاؤنٹ جن میں سے محض 4 اکاؤنٹس میں 1600 ارب روپے کی ٹرانزکشن ہوئی۔ اُس کے پاس 19 بیش قیمت گاڑیاں اور دبئی میں ایک بنگلہ بھی ہے۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ فرح گوگی نے جتنا مال کمایا عمران خاں کی بے نامی کے طور پر کمایا۔ 2019ء میں اُس نے 32 کروڑ روپے کی بلیک مَنی کو وائٹ کروایا۔ بیچارے عثمان بزدار کا نام تو ایسے ہی بدنام ہے پنجاب کی اصل وزیرِاعلیٰ تو فرح گوگی ہی تھی جس کی جنبشِ ابرو سے تبادلے اور تقرریاں ہوتی تھیں اور وہ جی بھر کے ”محنتانہ“بھی وصول کرتی تھی۔ یہ بھی شنید ہے کہ بنی گالہ کو بھی حصّہ پہنچتا تھا۔ اب عمران خاں ”گوگی بچاؤ مہم“ پہ نکلے ہوئے ہیں۔ وہ فرح گوگی کو انتہائی معصوم قرار دیتے ہوئے یہ جواز گھڑتے ہیں کہ فرح رئیل سٹیٹ کے کاروبار سے منسلک ہے اور چونکہ گزشتہ 3 سالوں سے رئیل سٹیٹ کا کاروبار عروج پر تھا اِس لیے اُس نے جو کچھ کمایا، وہیں سے کمایا۔ بجا ارشاد مگر کیا فرح گوگی کو الہام ہوا تھا کہ چکری اور روات انٹرچینج سے رِنگ روڈ گزرنے والی ہے؟۔ اُس نے اسلام آباد کے رہائشی شاہد محمود سے محض 2 کروڑ 60 لاکھ روپے میں اِس انٹرچینج پر 200 کنال زمین خریدی اور محض ایک ہفتے بعد اِس منصوبے کا اعلان بھی ہوگیا۔ پھر جب رنگ روڈ منصوبے کا سکینڈل سامنے آیا تو اُس نے یہی زمین ایک ارب روپے سے زائد میں فروخت کر دی۔ یہ تو صرف ابتدا ہے، پتہ نہیں اور کتنے گھپلے سامنے آنے والے ہیں۔ اب نیب اور ایف آئی اے اِس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہیں اور شنید ہے کہ موجودہ حکومت فرح گوگی کو انٹرپول کے ذریعے واپس لا رہی ہے۔ اُس کی واپسی پر ہی یہ عقدہ وا ہو سکتا ہے کہ وہ سارا مال خود ہی ڈکار گئی یا بنی گالہ کو بھی حصّہ بقدرِجُثہ پہنچتا رہا۔ ویسے کپتان کے گوگی کی حمایت میں کھُل کر سامنے آجانے کے بعد تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے“ وگرنہ محض بیوی کی دوست کی حمایت میں کون یوں سر دھڑ کی بازی لگاتا ہے۔ اِس معاملے میں فرح گوگی کے علاوہ خاں صاحب کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی شاملِ تفتیش کرنا چاہیے۔ اگر بینظیر شہید عدالتوں کے چکر کاٹ سکتی ہیں، مریم نواز پھانسی کوٹھی میں قید کی جا سکتی ہیں، بسترِمرگ پر پڑی محترمہ کلثوم نواز پر الزام تراشی ہو سکتی ہے اور سپریم کورٹ کے محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے تو بشریٰ بی بی کیا آسمان سے اُتری ہیں جو اُنہیں شاملِ تفتیش نہیں کیا جاسکتا؟۔
سبھی جانتے ہیں کہ بابا رحمتے نے کپتان کے ہاتھ میں صادق وامین کا سرٹیفکیٹ تھماکرجہانگیر ترین کو قُربانی کا بکرا بناتے ہوئے تاحیات نااہل کر دیا۔ یہ سب کچھ محض توازن قائم کرنے کے لیے کیا گیا کیونکہ اِس سے پہلے میاں نوازشریف کو بھی تاحیات نااہل قرار دیا جا چکا تھا۔اب اتحادی حکومت یہ سرٹیفکیٹ چھیننے پر تُلی بیٹھی ہے۔ خاں صاحب کے نِت نئے سکینڈل سامنے آتے دیکھ کر قوم انگشت بدنداں کیونکہ اُس کے نزدیک تو وہ ایک سچے، کھرے اور کرپشن سے دور انسان تھے۔ یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کا نعرہ لگا کر حقِ حکمرانی حاصل کیا تھااور اُن کے حواری بھی یہی سہانے سپنے دکھاتے رہے کہ کرپشن سے لوٹی گئی دولت کو بیرونی ممالک سے واپس لا کر سارے قرضے اتار دیئے جائیں گے یہ الگ بات کہ وہ کرپشن کا ایک پیسہ بھی برآمد نہ کر سکے۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ بین الاقوامی سرویز کے مطابق کرپشن پہلے سے بھی بڑھ گئی۔
وزیرِاعظم بننے سے پہلے خاں صاحب نے 2017ء میں ایک لاکھ 3 ہزار 763 روپے ٹیکس ادا کیا۔ 2018ء میں 2 لاکھ 82 ہزار 449 روپے جبکہ وزیرِاعظم بننے کے بعد 2019ء میں 98 لاکھ 54 ہزار 959 روپے ٹیکس ادائیگی کی۔ اب نوازلیگ سوال کرتی ہے کہ عمران خاں کے وہ کون سے خفیہ ذرائع آمدن تھے جو یکلخت اتنے بڑھ گئے جبکہ وہ خود ہی کہتے رہے ہیں کہ اُن کا تنخواہ کے 2 لاکھ روپے میں گزارا نہیں ہوتا(تنخواہ تو خیر خاں صاحب نے چار گنا بڑھا کر 8 لاکھ روپے کر لی تھی)۔ پھر لامحالہ نظر توشہ خانہ کے اُن تحائف پر پڑتی ہے جنہیں بیچ کر پیسے کھرے کر لیے گئے۔ تحفے کبھی بیچے نہیں جاتے لیکن کپتان کہتے ہیں ”میرے تحفے، میری مرضی“۔ توشہ خانہ کے تحائف کی بھی بھرپور انکوائری ہو رہی ہے لیکن اِس سے بڑا سکینڈل تو انگلینڈ سے آئے ہوئے 38 ارب روپے ہیں جو حکومتِ پاکستان کی ملکیت تھے لیکن کمال مہربانی سے ملک ریاض کو تھما دیئے گئے۔ ہوا یوں کہ ملک ریاض کو برطانیہ کی عدالت نے 38 ارب روپے جرمانہ کیا جو ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھا۔ جسے ملک ریاض کی سپریم کورٹ کے ساتھ سیٹلمنٹ کا حصّہ بنا دیا گیا۔ یہ سیٹلمنٹ 460 ارب روپے کی تھی۔ برطانیہ سے آئے ہوئے 38 ارب کو کسی بھی صورت میں 460 ارب روپے کی سیٹلمنٹ کا حصّہ نہیں بنایا جا سکتا تھاکیونکہ سپریم کورٹ کا کیس اور برطانوی کرائم ایجنسی کی تحقیقات دونوں الگ الگ کیسز ہیں۔ اِس فائدے کے عوض ملک ریاض نے بنی گالہ میں ہیروں کے ہار پہنچائے، زمان پارک کا گھر گرا کر محل بھی تعمیر کیا گیا اور سوہاوہ میں القادر نامی روحانی یونیورسٹی کے لیے زمین بھی عطیہ کی۔ اِس یونیورسٹی کے معتمد عمران خاں، بشریٰ بی بی، زلفی بخاری اور بابراعوان تھے۔ بعد ازاں زلفی بخاری اور بابراعوان کو ٹرسٹ سے ہٹا کر اُن کی جگہ ڈاکٹر عارف نذیر بٹ اور فرح گوگی کو تعینات کر دیا گیا۔ یہ تو ابتدا ہے آگے آگے دیکھئیے ہوتا ہے کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں