219

داد بیداد۔۔۔۔۔گفتگو کا مزا۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

چین، جا پا ن یا امریکہ اور یورپ میں 40یا 50سال گذار کر کوئی پا کستانی واپس اپنے ملک آتا ہے توا ایک بات کی شکایت کرتا ہے وہ بات یہ ہے کہ یہاں بات چیت، گفتگو اور گپ شپ کا کوئی مزا نہیں آپ کہینگے یہ کیا بات ہوئی؟ ہم پا کستانی گپ شپ اور گفتگو کے تو چیمپئین ہیں ضمیر جعفری نے مزا حیہ شعر میں ہماری تعریف کرتے ہوئے کیا بات کہی ہے ؎
وہ کچھ بھی نہیں کرتا میں ارام کر تا ہوں
وہ اپنا کام کرتاہے میں اپنا کام کر تا ہوں
یعنی دونوں کے پاس کرنے کو،کوئی کام نہیں ارام ہے اور گپ شپ ہے جب ایک عمر باہر گذار کر آنے والا پا کستانی کہتا ہے کہ ہمیں گپ شپ کا ڈھنگ بھی نہیں آتا تو اس پر بجا طور پر حیرت ہوتی ہے تعجب ہو تا ہے کہ یہ کیا بات ہو ئی؟ حجرہ ہو، بیٹھک ہو، ڈھیرہ ہو یا مسجد کی کوٹا نی ہو، دفتر ہو سکول ہو، کا لج ہو یو نیور سٹی ہو، مدرسہ یا کوئی پارک ہو، ہماری گپ شپ ہی کا تو مزا ہے یہاں تک کہ چہل قدمی ہمیشہ خا مو شی سے ہو نی چاہئیے، اکیلے ہو نی چا ہئیے ہم چہل قدمی کے لئے بھی باتو نی ساتھی ڈونڈھتے ہیں اور چہل قدمی کے دوران بھی پاوں سے زیا دہ زبان چلا تے ہیں ہماری گپ شپ کو پشاور کے انگریز گورنر جارج کننگھم نے ”قصہ خوانی گزٹ“ کا مشہور نا م دیا تھا انٹیلی جنس ریکارڈ اور خفیہ ڈایریوں میں یہ نا م آج تک محفوظ ہے اخبارات میں بھی اس نا م کی باز گشت گا ہے بگا ہے سنا ئی دیتی ہے اگر ہماری گپ شپ کا مزا نہیں تو پھر کس چیز کا مزا ہے؟ عمر کا ایک حصہ باہر گذار کر پا کستان واپس آنے والوں کے پا س ان کی بات کے حق میں کا فی وزنی دلا ئل ہیں وہ کہتے ہیں ہم جن ملکوں سے آگئے ہیں وہاں دوست، احباب، عزیز اقارب، میز با ن اور مہما ن ایک دوسرے سے ملیں تو دسیوں، بیسیوں بلکہ سینکڑوں مو ضو عات پر بات کرتے ہیں، صدر، وزیر اعظم، جج یا جرنیل کا نام زبان پر نہیں لا تے کسی وزیر کا نا م گفتگو میں نہیں لیتے، کسی سیا ست دان کا نا م کبھی نہیں لیتے اس لئے وہاں گفتگو اور گپ شپ دلچسپ ہو تی ہے بات چیت کا مزا آتا ہے، بات سننے اور بات کرنے کو جی چاہتا ہے پا کستان میں ایسی مصیبت ہے کہ یہاں آپ نما ز، روزہ، زکواۃ اور حج پر بات کریں تو سامنے والا شخص گفتگو کا رخ فوراً حکومت اور سیا ست کی طرف موڑدیتا ہے، آپ یہاں خون کا عطیہ دینے، اعضا ء کا عطیہ دینے، بیماروں کی تیمارداری، غریبوں کی دلجو ئی یا معاشرتی اصلا ح کی کوئی بات شروع کریں تو آپ کا مخا طب فوراً کسی وزیر یا سیا ست دان کا نا م لیکر بات کو سیاست کی گند ی گلی میں اتاردیتا ہے اور چند سیکنڈوں میں بات کا مزا کر کرا ہو جا تا ہے گفتگو کا ڈھنگ بدل جا تا ہے آپ کا دل بات چیت اور گپ شپ سے بیزار ہو جا تا ہے آپ خود لا کھ چپ رہیں پھر بھی بے ڈھنگی باتیں اور الل ٹپ گفتگو سننا پڑ تا ہے اس لئے آپ کو مجبو راً مجلس سے اٹھنا پڑتا ہے چنا نچہ یہاں گفتگو اور گپ شپ کا بالکل مزا نہیں ہے یہ سنکر آپ حیراں ہو تے ہیں کہ اس شخص کی بات کا کیا مطلب ہے، سیا ست کے بغیر کیسے گپ شپ ہو سکتی ہے سیا سی بات چیت نہ ہو تو اُس میں کیا مزا رہ جا ئے گا؟وہ کہتا ہے انتخا بات امریکہ اور جا پا ن میں بھی ہو تے ہیں، برطانیہ اور فرانس میں بھی ہو تے ہیں، وزیر اور جرنیل وہاں بھی ہیں، مگر وہاں لو گ اپنے گھر وں اورا پنی مجلسوں کو سیا سی گفتگو سے بے مزا نہیں کرتے وہ اپنی دلچسپی کی باتوں کو لیکر گفتگو کرتے ہیں کسی کوپیرا کی میں دلچسپی ہو تی ہے، کوئی پہاڑوں کی سیر کا شو قین ہوتا ہے کسی کو انسا نی فلا ح و بہبود میں دلچسپی ہو تی ہے، کوئی کاروبار کی دنیا میں دلچسپی رکھتا ہے یہ ایسے مو ضو عات ہیں جو سننے والے کو بھی دلچسپ معلوم ہو تے ہیں اس کو بات چیت میں مزا آتا ہے ہم عرض کر تے ہیں پھر وہاں ووٹ کیسے ہوتے ہیں؟ وہ کہتا ہے چند لو گ اُمید وار ہوتے ہیں ایک دن ووٹ مانگتے ہیں پھر ایک دن ووٹ ہوتا ہے پھر 4سال یا 5سال تک اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا ہم کہتے ہیں کیا وہاں سیا سی بیداری نہیں ہے؟ وہ کہتا ہے وہا ں سیا سی بیداری ہے اس لئے سیا ست پر بات کرکے وہ بات چیت اور گفتگو کو بے مزا نہیں کرتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں