247

گھسیٹی بیگم۔۔۔۔۔تحریر:تقدیرہ خان

سابق وزیراعظم جناب عمران خان کو ایک سازش یا غیر ملکی مداخلت کے ذریعہ ہٹا کر میاں شہباز شریف کی سربراہی میں PDMکے ارکان اسمبلی پر مشتمل ایک مخلوط حکومت قائم کر دی گئی ہے۔اس حکومت کا نہ توکوئی سر ہے اور نہ ہی پیر ہے۔بڑے اور فیصلہ کن اختیار رکھنے والے اداروں کی بھر پور مدد و حمایت کے باوجود حکومت کی گاڑی پٹڑی پر نہیں آ رہی۔بلاول، مریم اور دیگر جیالوں اور متوالوں کی طرف سے دھمکیوں، قانون کی گرفت اور عبرتناک انجام کی صدائیں بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہیں۔شورشرابے کے اس ماحول میں عام آدمی پریشان ہے مگر سیاسی جماعتوں کے عہدیدار اور کارندے جن میں جیالوں، متوالوں اور جبہ و دستار والے علمأ و طلبأشامل ہیں گرم جوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔پتہ نہیں یہ لوگ کس نشے میں ہیں اور انہیں کون سا خزانہ ملنے والا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں PDMنے امریکہ اور مغربی ممالک کی مدد سے جس طرح عمران خان پرفتح حاصل کی انہیں اس کے صلح میں کیا ملنے والا ہے؟۔
مرزا ظہیرالدین بابر نے دہلی پر قبضہ کیا تو شاہی خزانے کا چوتھا حصہ کابل بھجوا دیا۔کہتے ہیں کہ کابل سے ہرات اور بدخشاں تک ہر فرد کو سونے کی ایک اشرفی دی گی جس کا وزن ایک تولے کے برابر تھا۔جنگ پلاسی کے بعد ایسٹ اینڈیا کمپنی نے بہار،بنگال اور اُڑیسہ کہ خزانوں پر قبضہ کیااور سونے وچاندی کے علاوہ کئی من ہیرے و جواہرات برطانیہ بھجوائے کہ سارا ملک مالامال ہو گیا۔پتہ نہیں کہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد اسلام آباد سے کونسا خزانہ PDMکے ہاتھ آیا ہے کہ جیالے اور متوالے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ہوسکتا ہے کہ زرداری اور شریف خاندان اپنی دولت ملک میں واپس لے آئے ہوں اور جناب مفتاح اسمٰعیل نے اپنی ٹافیوں، سنگتریوں اور کھٹی میٹھی گولیوں کی فیکٹریوں سے کمائی ہوئی دولت قومی خزانے میں جمع کر وا دی ہو۔کوئی دو ماہ پہلے مولانا فضل الرحمان نے امریکی صدر جوبائڈن کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ آپ ایک زیرک،تجربہ کار سیاستدان اور جمہوریت پسند ہیں۔آپ پر لازم ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت پسندہیں ان کی مدد کی جائے۔ یہ وہی مولانا صاحب ہیں جن کے اخلاق اور خواہشات کا ذکرمرحومہ کلثوم سیف اللہ نے اپنی کتاب “میری تنہا پرواز”اور کونڈالیزا رائس نے اپنی تصنیف میں کیا ہے۔مریم اورنگزیب اور عطا تارڑ مولانا کے بیانات کی جو بھی تشریح کریں وہ ان کا حق ہے مگر حقییقت کو افسانے میں بدلنے سے حقیقت مسخ نہیں ہوتی۔چند روز قبل مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس کے دوران ایک فوٹو لہر اکر دکھلا رہی تھی کہ عمران خان KPKکے وزیراعلیٰ کا ہیلی کاپٹر استعمال کر رہا ہے۔دوسرے ہی روز میاں نواز شریف کے سابق چیف سیکیورٹی آفیسر کرنل واصف سجاد نے مریم اورنگزیب کو جواب دیتے ہو کہا کہ جب میاں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہ تھا تو ہو وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کا ہیلی کاپٹر بے دریغ استعمال کرتے تھے۔کرنل واصف سجاد کے اس Facebookبیان کا حکومت نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی تردید کی ہے۔
پتہ نہیں کہ ہمارا آدھہ آئین ہمیشہ خاموش کیوں رہتا ہے۔موجودہ حالات میں ہماری عدلیہ منحرف اراکین اسمبلی کے متعلق ابھی تک کوئی فیصلہ کیوں نہیں کر پائی۔آدھے خاموش آئین کے مطابق عمران خان اور عثمان بزدار کی حکومتیں ابھی تک ختم نہیں ہوئیں چونکہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سپیکر قومی اسمبلی نے PTIوالوں کے استعفٰے منظور ہی نہیں کئے۔ہمارے قومی ادارے بڑے ہی متحرک ہیں اور عدالتیں رات کو بھی کھل سکتی ہیں اور اہم فیصلے صادر کرتی ہیں۔چینی دانشور، مفکر اور بیوکریٹک نظام کا باباآدم کنفیوشس چین کا چیف جسٹس بھی تھا۔ وہ چلتی پھرتی یونیورسٹی اور عدالت تھا اور اس کے فیصلوں اور احکامات کو ئی وقت مقرر نہ تھا۔ کائینات کا نظام بھی تو عدل اورا عتدال پر قائم ہے۔دنیا کا نظام کائیناتی نظام کا ہی پرتو ہے۔ عمران خان کے خلاف تیار ہوئی عدم عتماد کی تحریک ایک مکمل آپریشن تھاجسے کسی بھی صورت میں جمہوری اور آئینی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔بات امریکہ سے چلی پھر عدلیہ سے ہوتی پارلیمنٹ میں آنے سے پہلے سندھ ہاؤس اور میریٹ ہوٹل اسلام آباد کی غلام گردشوں میں گھومتی اور جھومتی رہی۔ وہ صحافی اور ٹیلی ویژن اینکر جو PDMکے میڈیا سیل کا حصہ نہ تھے دن رات خبریں، تبصرے اور کمنٹری نشر کرتے رہے کہ سندھ ہاؤس میں نوٹوں کے کتنے کریٹ آئے اور پھر میریٹ ہوٹل میں کیسے شفٹ ہوئے۔عدلیہ اگر چاہے تو لوٹ گھسوٹ کی اس دولت کا حساب لے کر مجرموں کو سزا دے سکتی ہے۔ مگر،اگر یہ سب جمہوریت کا حسن اور سیاست کا معیار ہے تو اس پر بات نہیں کی جا سکتی۔مگر نقصان اس کا یہ ہو گا آئندہ ہمیں ایسے ہی جمہوری نظام اور حکومتی بندوبست کے زیر نگیں زندہ رہنا ہو گا۔عمران خان تقریبا ہر جلسے میں کہہ رہے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔یہ بات ایک سال پہلے سے ہو رہی ہے اور دانشور صحافی مالک اور دیگر نے اپنے پروگراموں میں مدعو کئیے گے نجومیوں سے بھی یہی کہلوایا یا پھر انہوں نے اپنے علم کی روشنی میں کہا کہ کچھ اہم شخصیات کی جان کو خطرہ ہے۔بات اہم شخصیا ت سے اہم شخص تک پہنچی تو حمزہ شہباز شریف سے 15مئی کے جلسے میں کہا کہ عمران خان ملک کے لئے خطرناک ہوتا جا رہا ہے اس کا کوئی بندوبست کرنا ہو گا۔ موصوف نے مگر بندوبست کی تشریح نہیں کی جبکہ عمران خان کھل کر تشریح کر رہا ہے۔ عمران خان نے فیصل آباد کے جلسے میں کہا کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو میرا ریکارڈ شدہ بیان سامنے آجائے گا جس میں میں نے اپنے مخالفیں اور منصوبہ سازوں کے نام لے کر بیان ریکارڈ کروا دیا ہے۔پھر یہ بھی کہا کہ عدالتیں انصاف نہیں کرتیں اور نہ ہی طاقتور کو قانون کی گرفت میں لایا جاتا ہے۔عمران خان نے تاریخ سے چند مثالیں پیش کرنے کے بعد کہا کہ پاکستان کے عوام مجھے انصاف دلائیں گے۔ عوام کیسے انصاف دلائیں گے؟ اس کی ایک جھلک ہم بینظیر کے قتل کے بعد سندھ میں جلتی ٹرینوں، دکانوں اور بازاروں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔اگرچہ یہ سندھ کے چند حصوں تک محدود تھا مگر انتہائی خوفناک بھی تھا۔سوال یہ ہے کہ ملک کے اہم اورقومی سلامتی کے ادارے ایسی نوبت ہی کیوں آنے دیتے ہیں۔حکومتیں اور حکمران ملکی اور قومی خزانہ لوٹنے کے علاوہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کیوں نہیں کرتیں اور عدالتیں بر وقت انصاف کرنے سے کیوں گریزاں رہتی ہیں۔آخر ہم ایسے قومی سانحات اور حادثات روکنے میں ہمیشہ ناکام کیوں ہوتے ہیں۔عمران خان اپنی تقریروں میں میر جعفر اور میر صادق کی مثالیں پیش کر رہے ہیں۔ جنہوں نے وقت کے حکمرانوں کے ساتھ غداری کی مگر آخرکار انہیں سوائے ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا۔ شیر بنگال سراج الدین الدولہ اور شیر میسور سلطان حیدر علی ٹیپو شہادت کے بعد تاریخ کے ہیرو ٹھہرے جبکہ میر جعفر، گھسیٹی بیگم، میر جعفر کا بیٹا میر میراں، میسور کا وزیراعظم پورنیا، علی محمد لنگڑااور میر صادق اپنی غداری کی وجہ سے لعنت، ندامت اورذلت و رسوائی کا گلے میں طوق لے کر مرے اور تاریخ میں اپنا نام غداروں، وطن فروشوں اور دین فروشوں کی فہرست میں لکھوا گے۔ گھسیٹی بیگم جس کا اصل نام مہرالنساء بیگم تھااصل غدار، منصوبہ ساز اور سہولت کار تھی۔گھسیٹی بیگم نواب آف بنگال، بہار اور اڑیسہ علی وردی خان کی سب سے بڑی بیٹی تھی اور بے اولاد تھی۔سراج الدولہ نواب علی وردی خان کی سب سے چھوٹی بیٹی امینہ بیگم کا بیٹا اورنواب علی وردی خان کا نواسہ تھا۔گھسیٹی بیگم اپنے لے پالک بیٹے کو گدی پر بٹھانا چاہتی تھی مگر بظاہر اس نے سپہ سالار میر جعفر کو نوابی کا لالچ دے رکھا تھا۔ گھسیٹی بیگم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ خفیہ معادہ کیا کہ سراج الدولہ کے خاتمے کے بعد وہ میر جعفر کو راستے سے ہٹا کر خود اپنے باپ کی جگہ لے گی چونکہ بیٹی کی حیثیت سے وہی گدی کی حقدار ہے۔سراج الدولہ کو اس کے باپ نے بیٹیوں کا حق مار کرولی عہد مقرر کیا تھا۔کامیابی کے بعد وہ صوبے کی تجارت پر انگریزوں کی اجاراداری قبول کر لے گی اور دیگر یورپی تاجروں کو بہار، بنگال،اوڑیسہ اور دیگر علاقوں سے نکال باہر کرے گی۔مگر نواب سراج الدولہ کی شہادت کے بعد کسی کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ میر جعفر کے بیٹے نے گھسیٹی بیگم کو بوڑھی گنگا میں ڈبو کر مار دیا اور میر جعفر صرف چھ ماہ تک بنگال کے تخت پر براجمان رہا۔میر جعفر کا بیٹا قتل ہوا اور میر جعفر خود گوشہ گمنامی میں چلا گیا۔شیر بنگال سراج الدولہ تئیس سال کی عمر میں اپنے نانا کی وفات کے بعد تخت نشیں ہوا اور سب سے پہلے مرہٹوں کی سر کوبی

کے لئے نکلا۔مرہٹوں کو عبرت ناک شکست دینے کے بعد اس نے ریاستی امور پر توجہ دی اور ملک کے اندر پیدا ہونے والی سازشوں کا خاتمہ کیا۔ریاستی نظام کو ازسرنو تشکیل دیا اورر پانچ سال تک کسانوں کا لگان نصف کر دیا۔لوٹ گھسوٹ کر نے والے تاجروں، صنعت کاروں اور افسروں سے دولت واپس لے کر خزانے میں ڈال دی۔فوج کی تربیت کا بندوبست کیا اور سازشی جرنیلوں اور جاگیرداروں سے مراعات واپس لے لیں۔سراج الدولہ نے سپہ سالار میر جعفر کو عہدے سے ہٹا دیا اور خالہ مہر النساء عرف گھسیٹی بیگم کی ساری جائیداد قومی خزانے میں جمع کروا دی۔
سراج الدولہ اپنے ذہانت اوربہادری کے باوجود دین پرست اورنرم دل انسان تھا۔ اس نے گھسیٹی بیگم کا وظیفہ مقرر کیا اور اسے محل میں رہنے کی اجازت دے دی۔ میر جعفر علمأ کا ایک وفد لے کر نواب کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارے جرم قبول کر کے معافی مانگ لی۔ میر جعفر نے اپنے سعادات گھرانے سے تعلق کا حوالہ دیتے ہوئے علمأ کے سامنے قرآن پاک پر حلف لیا اور عہد کیا کہ وہ ہمیشہ نواب اور ریاست کا وفا دار رہے گا۔ علمأ اور وزرأ نے بھی اس کی سفارش کی جس کی وجہ سے نواب نے اسے سپہ سالاری کے عہدے پر بحال کر دیا۔ایسی کئیں مثالیں ہماری تاریخ میں بھی ہیں جن کی وجہ سے ملک تنزلی کا شکار ہے۔
موجودہ افراتفری اور ملک کے ابتر حالات کا تجزیہ کیا جائے تو سب سے پہلے ہمیں بلاول بھٹو کے دورہ امریکہ پر توجہ مرکوز کر نی ہوگی۔ جناب بلاول بھٹوامریکہ میں کن لوگوں سے ملے اور ان کے دورے میں حسین حقانی کا کیا رول تھا کہ واپس آتے ہی بلاول نے PDMتشکیل دی اور پھر بظاہر فضل الرحمان کی پالیسیوں اور مریم نواز کی بیان بازیوں کا بہانہ بنا کر علیحدگی اختیار کر لی۔آصف زرداری کی یہ چال جسے PTI کے دانشور سمجھ نہ سکے ملک کی بد حالی کا باعث بنی۔اسی دوران PPPاصل قائد آصف زرداری متحرک رہے اور یکایک امریکہ نے یوکرین جنگ اور عمران خان کے دورہ روس کی آڑ میں کھل کر پاکستان کی مخالفت شروع کر دی۔ گزرے اگست میں امریکہ کی افغانستان سے واپسی، افغان نیشنل آرمی کا ملک کے اندر ہی غائب ہو جانا اور افغان حکومت کا خاتمہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے ندامت کا باعث بنا۔پاکستان نے پہلے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کرنے کے بعد امریکہ سمیت مغربی سفارتکاروں، صحافیوں، شہریوں اور فوجی دستوں کے افغانستان سے انخلأ میں جو مدد کی امریکہ نے شکریہ کہنے کی بجائے اپنی شکست و ندامت کا ذمہ دار پاکستان اورعمران خان کو ٹھرا دیا۔
امریکی رویے میں تبدیلی، آصف زرداری کی خفیہ چال بازی، مغربی اور امریکی سفارتکاروں کی PDMاور PTIکے ممبران اسمبلی سے ملاقاتوں اور لندن میں مقیم میاں نواز شریف کی افغانستان، بھارت، امریکہ اور دیگرپاکستان مخالف ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں اور سفارتکاروں سے ملاقاتیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس دوران پاکستانی دفاعی اداروں اور خفیہ معلومات حاصل کرنے والی ایجنسیوں کا کیا کردار رہاہے اس پر بہتر تبصرہ صرف عمران خان اور ان اداروں کے سربراہان ہی کر سکتے ہیں۔ادارے اگرچہ غیر جانبداری کا اندیہ دے چکے ہیں مگر وہ بے خبر اور غیر متحرک ہرگز نہیں رہ سکتے۔ ان اداروں کے قیام کا مقصد ہی ملک اور قوم کی حفاظت اور حکومت کی رہنمائی ہے۔ یہ 1757کا دور نہیں اور نہ ہی کوئی پاکستانی گھسیٹی بیگم اپنی تقریروں اور چانکیائی چالوں کے باوجود ملکی سلامتی کے اداروں کو چکمہ دے سکتی ہے۔اگرچہ ایسٹ انڈیاکمپنی کا کردار امریکہ اور اہل مغرب کر رہے ہیں اور ہماری سیاسی منڈی میں میر جعفروں، میر میراں، محمد علی بیگ،میرصادق، پورنیا اور علی محمد لنگڑ جیسے کردار بھی موجود ہیں مگر ہمارے دفاعی ادارے ان سب کی گردن مروڑ نے کا نسخہ بھی جانتے ہیں۔ ان کی کوئی چال ہمارے دفاعی اداروں سے چھپی نہیں اور نہ ہی وہ غیر جانبدار ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں۔شاید غیر جانبداری کا لفظ غلطی سے بول دیا گیاہو جسکی تردید اشد ضروری ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے سراج الدولہ کو خود نہیں بلکہ اس کے رشتہ داروں سے شہید کروایا تھا۔ میر جعفر کی پھپھی نواب علی وردی خان کے نکاح میں تھی۔ چوبیس سالہ نواب سراج الدولہ بنگال کا آخری نواب تھا۔ مگر پاکستان ایک معجزہ اور منفرد ملک ہے جس کی زمین ابھی تک بنجر نہیں ہوئی اور نہ ہی مجاہد پیدا کرنے والی مائیں بانجھ ہیں۔ اس بات کا اندازہ گھسیٹی بیگم اور دیگر گاموں اور گھسیٹوں کو بھی ہے۔ضروری ہے کہ بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے اور اندرونی سازشیوں کی چالوں میں آنے کی بجائے وطن پرستی کا شیوا اختیار کیا جائے۔ڈالروں کے جہاز بھر کر دبئی بھجنے سے آپ کی نجات نہ ہو گی بلکہ انجام میر جعفر، میر میراں اور گھسیٹی بیگم سے بھی بدتر ہو گا۔ہمارے سیاست دان صدر نکسن کا یہ قول یاد رکھیں کہ امریکہ کی دشمنی سے اس کی دوستی زیادہ خطرناک ہے اور ہم اس دوستی کا 75سالوں سے خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں