384

فین کلب۔۔۔۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

دوپہر کا وقت مئی کا مہینہ آسمان پر بادلوں کا ایک بھی ٹکڑا نہیں تھا سورج صبح سے ہی سوا نیزے پر آگیا تھا سورج کے تیور بتا رہے تھے کہ آج وہ زمین کو تندور بنا کر زمین کے باسیوں کو کباب بنا کر چھوڑے گا میں سورج کے تیور دیکھ کر گھر کے اندر اے سی کی خوشگوار ٹھنڈک میں ایک کتاب کے سحر میں گم تھا مصنف کی نثر نگاری اور سسپنس پورے جوبن پر تھا میں کتاب کے سحر میں غرق دنیا سے غافل ہو چکا تھا حقیقت میں مصنف مجھے اپنی قید میں جکڑنے میں کامیاب ہو چکا تھا میں اِس وقت کسی قسم کی دخل اندازی برداشت کر نے کے موڈ میں نہیں تھا اِسی وقت کسی نے شکر دوپہرے دروازے پر آکر ڈور بیل نان سٹاپ بجانا شروع کر دی میں نظر انداز کرنے کے موڈ میں تھا کیونکہ کتاب کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا تھا میری ساری کائنات اِس وقت کتا ب کے اوراق میں سمٹ آئی تھی ملازمہ حسب معمول گئی جا کر مذاکرات کئے لیکن آنے والوں نے ملازمہ کی ایک نہ سنی منتوں ترلوں پر اُتر آئے تو ملازمہ کا جذبہ ہمدردی بیدار ہوا تو ڈرتے ڈرتے میرے پاس آکر سہمے لہجے میں بولی باہر کوئی آنٹی اپنی جوان بیٹی کے ساتھ آئی ہیں دونوں بہت رو رہی ہیں کہ ہم نے ہر صورت میں پروفیسر صاحب سے مل کر جانا ہے اگر وہ گھر پر نہیں ہیں تو دروازہ کھول وہ ہم تو رات تک ادھر ہی بیٹھ کر انتظار کریں گے۔ساتھ ہی ملازمہ نے دبے لفظوں میں سفارش بھی کر دی کہ انہوں نے واپس تو جانا نہیں اِس لیے آپ مل لیں۔بیچاری کڑی دھوپ میں کھڑی ہیں ملازمہ کی بات سن کر میرا خدمت خلق کا جذبہ بھی انگڑائی لے کر بیدار ہو گیا میں نے کتاب کو بند کیا اور مین دروازے کی طرف چل دیا دروازہ کھولا تو ایک ادھیڑ عمر کی عورت اپنی جوان بیٹی کے ساتھ کھڑی تھی مجھے دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرنے لگیں کہ میں گھر پر موجود ہوں میں جلدی سے دونوں کو ڈرائینگ روم میں لے آیا تاکہ دونوں کی بات سننے کے بعد پھر کتاب کی دنیا میں گم ہو سکوں دونوں کو ٹھنڈا میٹھا مشروب پلایا تو عورت کچھ نارمل ہو ئی بولی سر میں آپ سے فون پر وظیفہ لے چکی ہوں اللہ کے کرم اور وظیفے کی برکت سے میری بیٹی کی اچھی جگہ منگنی ہو گئی سب بہت اچھا چل رہا تھا ایک ماہ بعد شادی تھی چند دن پہلے ہم بیٹے والوں کی طرف فائنل تیاریوں کے سلسلے میں گئے تو وہاں پر بیٹے کا ماموں بھی آیا ہوا تھا کھانے کے بعد گپ شپ کا دور شروع ہوا بات ملکی سیاست پر آگئی میرے میاں بھٹو صاحب کے دیوانے بیٹا شریف فیملی کا مداح جبکہ ماموں عمران خان کے ڈائی ہارڈ فین شروع میں ہلکی پھلکی گفتگو ہو تی رہی لیکن جیسے جیسے گفتگو کا سلسلہ دراز ہو رہا تھا لہجوں میں شائستگی مروت مٹھاس کم ہونے کی بجائے آواز بلند ہو رہی تھی اب بحث اِس نقطے پر آکر پھنس گئی کہ قائد اعظم کے بعد اگر کوئی لیڈر آیا ہے تو وہ عمران خان ہیں جبکہ میرے میاں صاحب کی رگوں میں تو بھٹو کی محبت جاگتی ہے بیٹے نے درمیان میں شریف فیملی کی تعریفیں شروع کر دیں بات تلخ کلامی سے گالی گلوچ میں داخل ہو گئی میں نے اشاروں میں میاں بیٹے کو بہت سمجھانے روکنے کی کو شش کی لیکن میاں اور بیٹا اِس زعم میں کہ ہم لڑکے کے گھر والوں سے نہیں وہاں پر آئے مہمان سے گفتگو کر رہے ہیں جب بات لیڈروں کو گالیاں دینے پر آئی تو میں ڈر گئی میاں بیٹے کو پکڑا اور گھر آگئی گھر آکر میاں اور بیٹے سے خوب لڑائی کی کہ آپ لوگوں نے بہت غلط کام کیا ہم لڑکی والے ہیں وہاں اونچی آواز میں بات نہیں کرنی چاہیے تھی تو دونوں بولے ان کے ماموں دھڑلے سے ہمارے لیڈروں پر الزامات اور گالیاں دے رہے تھے تو ہم کیسے برداشت کرتے اگلے دن جس کا ڈر تھا وہ ہو گیا لڑکے والوں کی طرف سے فون آگیا کہ آپ لوگوں نے ہمارے ماموں صاحب کی بے عزتی کی ہے اب ماموں جی اِس بات پر اڑ گئے ہیں کہ اگر آپ لوگوں نے یہاں رشتہ کیا تو میرا آپ لوگوں سے جینا مرنا ختم اور نہ ہیں میں آپ کی شادی پر آؤں گا لڑکے والوں نے انکار پر گھر میں صف ماتم بچھ گئی بہت فون کئے معافیاں مانگیں لیکن لڑکے والے بضد کہ ماموں نہیں مان رہے جب مسئلہ حل نہ ہوا تو دونوں ماں بیٹی میرے گھر پر آگئیں میں نے دونوں کو سمجھایا کہ جا کر ماموں سے معافی مانگ لو اور وہاں عہد اقرار کرو کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ساتھ میں وظیفہ بھی دیا کہ جا کر اللہ سے دعا مانگو ایک ہفتے بعد ماں کا فون آیا کہ آپ کے مشورے پر ہم نے جا کر ماموں جی سے معافی مانگی ہے اُن کے دوستوں کو بیچ میں ڈالا تو بڑی مشکلوں سے ماموں جان مان گئے ہیں اور ہمارا رشتہ ٹوٹنے سے بچ گیا ہے اِس وقت وطن عزیز میں عوام کے مختلف فین کلب بن چکے ہیں آپ کسی فنکشن شادی یہاں تک کے کسی فوتگی والے گھر چلے جائیں رسمی گفتگو کے بعد مختلف لیڈٖروں کے دیوانے ایک دوسرے پر چڑھتے نظر آئیں گے پچھلے دنوں میں ایک دوست کے ساتھ ہوٹل میں گیا تو عجیب نظارہ دیکھا ایک فیملی بہت اچھے موڈ میں کھانے سے لطف اندوز ہو رہی تھی تھوڑی دیر میں ہی اونچی آواز میں باتیں پھر گالی گلوچ اور پھر گلا س پلیٹیں ٹوٹنے کی آوازیں پھر خاندان کھانا چھوڑ کر چلا گیا لیکن واپس جاتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے ساتھ میں دیکھ لوں گا میں بھی دیکھ لوں گا تم گھر تو چلو ان کے جانے کے بعد بیرے سے پوچھا تو اُس نے بتایا ماں بیٹی عمران خان کی فین جبکہ باپ نواز شریف کا چاہنے والا ماں بیٹی باپ سے کہہ رہی تھیں کہ آپ یہاں تو بہت شوق سے آتے ہیں جب عمران خان کے جلسے یا ریلی میں کہاجاتا ہے تو آپ انکار کر دیتے ہیں اگلی بات آپ ہرصورت میں ہمارے ساتھ جائیں گے جو اب میں میاں نے انکار اور عمران خان کی شان میں گستاخی کر دی تو ماں بیٹی عمران کے مخالف کپڑے پھاڑنے پر اُتر آئیں ایسے واقعات آپ کو ہر گھر محلے گاؤں شہر روز دیکھنے کو مل رہے ہیں پر امن معاشرہ تقسیم ہو تا جارہا ہے میں یہاں کسی پارٹی کا لیڈر کی حمایت بند کر رہا کیونکہ یہاں پر پہلی دو پارٹیوں نے آکر کر پشن کے ریکارڈ توڑے بینکوں کے بینک ڈکار گئے تو تحریک انصاف کی حکومت بھی عوام کو انصاف اور اچھی زندگی نہ دے سکی عمران خان کے وزیروں نے بھی نااہلیوں حماقتوں کے ریکارڈ توڑ دئیے پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں اپنے مفادات اور اقتدار کے لیے کوچہ اقتدار پر قبضہ کرتی ہیں غریب کا کسی کو درد نہیں ہے آپ کسی لیڈر کے خلاف ایک لفظ بول کہ دیکھیں کس طرح گٹروں کے ڈھکن کھلتے ہیں یا گالیوں کی فیکٹریاں آپ کے پیچھے لگ جاتی ہیں پاکستان میں ہر شخص کو اپنی مرضی کا لیڈر سیاسی جماعت چننے کا پورا پورا حق ہے لیکن خدا کے لیے دوسروں کی گردن پر بندوق نہ رکھیں کہ وہ بھی آپ کی ہاں میں ہاں ملا نے اِس وقت مختلف لیڈروں کے فین اپنے لیڈروں کے خلاف ایک بھی لفظ سننے کو تیار نہیں ہیں آپ اتنی لڑائی یہاں ضرور لڑیں لیکن خدا کے لیے ان کا انسان ہی رہنے دیں پچھلے دنوں جو بے حرمتی مسجد نبوی ﷺ میں ہوئی وہ کس پارٹی نے کس کے لوگوں نے کی قابل مذمت ہے کیونکہ وہ محبوب خدا وجہ تخلیق کائنات سرور دو جہاں سر تاج الانبیاء ﷺ کا در ہے جہاں پر امام مالک ؒ کتاب کا ورق بھی آہستگی سے پلٹے تھے کہ آقا کریم ﷺ کے آرام میں خلل یا گستاخی نہ ہو جائے یہ وہ جگہ ہے جو عرش سے نازک و ارفع ہے جہاں جنید با یزید ؒ دم کشیدہ حاضر ہو کر اونچی آواز میں سانس نہیں لیتے تھے کہ کہیں گستاخی نہ ہو جائے جہاں کبھی صدا بھی نہیں لگائی جاتی بلکہ درِ حضور ﷺ پر پلکوں سے دستک دی جاتی ہے کیونکہ حرم نبوی ﷺ کی خاک کے ذرات آسمانی ستاروں سے ارفع ہیں یہاں آقا کریم ﷺ کے تلوے مبارک لگتے تھے کہ ادب کا مقام ہے جہاں پر بے ادبی سے دونوں جہاں راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں