213

دھڑکنوں کی زبان…”پروردگار“…محمد جاوید حیات

کائنات کے مالک اس کائنات میں تیرا حکم جاری ہے۔یہ تیری قدرت کا شاہکار ہے اس کے زرے زرے میں تیری عظمت نمایان ہے۔اس کائنات کا شاہکار تیری مخلوقات سے سب سے افضل انسان یہاں پر تیرا خلیفہ ہے۔تو نے اس انسان کی طرف اپنا حکم اپنا دین اپنے نبی بھیجے۔یہ انسان اپنے سفر میں عروج و زوال کا شکار رہاہے۔ایک نے دوسرے کو غلام بنایا جس نے طاقت پکڑی دوسرے پر چڑھائی کی۔یہاں سے غلامی اور اقا کے شوشے جنم لیتے ہیں دونوں فطرت کے قانون اور تقاضوں کے ہاتھوں مجبور ہیں۔۔پروردگار۔۔۔
تو جس قوم کو اُٹھاتا ہے اس میں غیرت جان فشانی صداقت قربانی جد و جہد کا جذبہ پیدا کرتا ہے وہ بڑے سے بڑا معرکہ سر کرتی ہے اور اپنی منزل تک پہنچتی ہے اس قوم کے آگے بڑے بڑے زبردست خس و خاشاک ہوتے ہیں۔یہ ایک سیل روان ہوتا ہے۔دنیا نے یہ نظارے کئی بار دیکھے۔
پروردگار۔۔۔
تو نے برصغیر میں بھی یوں تماشا کیا تھا۔۔ایک قوم کو اُٹھایا وہ تیرا نام لیوا تھی۔انہوں نے سارے بت توڑ دیئے۔تیرے نام کا بول بالا ہوا۔۔پھر آقا تیرا قانون ہے نا کہ بندہ اپنی غیرت قومی حمیت اور جدوجہد اور سخت جانی کھو دے عیاشیوں میں عرق ہوجائے تو تیری حمیت اور رحمت اُٹھ جاتی ہے۔۔ایسا ہی ہوا۔آقا غلام بن گیا۔۔لیکن غیرت جب جاگی تو تیری حمیت پہنچ گئی۔خلوص صداقت محنت پھر اس قوم کی پہچان بن گئی۔۔
پروردگار۔۔۔
تو نے بہت مختصر مدت میں ان کو آزادی عطا کی۔بے مثال سرزمین مرحمت کی ان کو ایک قوم بنایا۔۔
پروردگار۔۔
اس عطا کے کچھ منطق تھے کہ نہیں تھے بالکل تھے۔تم نے اس قوم کو ان انعامات سے اس لئے نوازہ تھا کہ یہ تیرا نام لیوا تھی۔انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ یہ زمین تیرے نام پہ حاصل کیا گیا ہے اس میں تیرا نام لیا جائے گا۔تیری عظمت کا بول بالا ہوگا۔یہ قوم دنیا کے لئے مثال ہوگی۔ دنیا والے اس کی مثالیں دیں گے۔یہ ترقی کرے گی یہ دنیاوی دولت سے مالامال ہوگی۔یہ حق و صداقت کی مثال ہوگی۔یہ اسلامی دنیا کا تاج محل ہوگی۔۔یہ قناعت کی دولت سے اپنی پہچان بنائی گی۔
پروردگار۔۔۔
تو کوئی انعام غیر مستحق کو عطا نہیں کرتا جو اس کا اہل نہ ہوگا اس کو عطا نہیں کرتا۔یہ ملک اور آزادی بہت بڑا انعام ہے۔سوال ہے آقا کیا تو نے اس انعام کو کسی نااہل کو تو عطا نہیں کیا۔یہ قوم نااہل تو نہیں
پروردگار۔۔۔۔
یہ انعامات جب اس قوم کو مل گئی تھیں تو یہ غیرت والی تھی۔پھر اس کو کیا ہوگیا۔۔اسکے ابتدائی دن بڑے عسرت میں گزرے تھے۔غریبی تھی مجبوریاں تھیں۔ان کے سامنے اس سرزمین کی تعمیر تھی لیکن انہوں نے بڑی بے جگری سے ان مصائب کا مقابلہ کیا۔اس کو اثاثوں سے محروم رکھا گیا۔اس کو بے سر سامان کیا گیا اس پر جنگیں مسلط کی گئیں۔۔لیکن یہ ڈٹی رہی۔لیکن یہ ڈٹی رہی۔لیکن آقا پھر تو اس کی صلاحیتوں کو کچھ ہوگیا۔اس کی غیرت مر سی گئی۔ بے چینیاں، خود غرضیاں، لالچ،کرسی فوبیا،حیوانیت،ظلم نا انصافیاں محرومیاں۔۔۔
پروردگار۔۔۔
یہ کیا مناظر ہیں یہ کیا ڈرامے ہیں یہ تو خونی ناٹک ہیں۔اس قوم کا دم نفرت کی فضاء میں گھٹ رہا ہے۔یہ ایک دوسرے سے گھتم گھتا ہے۔یہ تو ”بھائی ” ہوا کرتی تھی اب خنجر اُٹھاتی دشمن ہے۔بھائی بھائی کا خون بہانے کو تیار ہے۔ اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔قرض لینے کو صلاحیت قابلیت اور تعلق کہا جا رہا ہے۔جو حکمران زیادہ قرض لے وہ قابل حکمران ہے جو اعیار اور دشمنوں کے ایجنڈے پر کامیابی سے عمل پیرا ہو وہ قابل حکمران ہے۔
پروردگار۔۔
سٹیج پہ کھڑے نمائندے ایک دوسرے کو موٹی موٹی گالیاں دے رہے ہیں۔خواتین ایک دوسرے کے جبڑے پکڑے ہوئی ہیں نوجوان ایک دوسرے کے گریبان پکڑے ہوئے ہیں۔بزرگ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال رہے ہیں۔آقا کیا تو نے ان کو آزادی کی نعمت سے نوازا تھا۔
پروردگار۔۔
اس قوم کا غریب فاقے سے مر رہا ہے روشنیوں کے اس چکا چوند دورہ میں بھی یہ قوم تاریکیوں میں ٹامکٹوئیاں کھا رہی ہے۔بے روزگاری نے جینا حرام کر دیا ہے۔جن کے پاس دولت ہے اس میں مزید اضافہ ہورہا ہے غریب کچلا رہا ہے۔دردر کی ٹھوکریں ہیں۔جلسے جلوس ہیں۔۔دھواں اُٹھ رہا ہے درخت جلائی جا رہے ہیں۔گولیاں چل رہی ہیں خون بہہ رہا ہے۔۔اپنے یہ سب کچھ کررہے ہیں۔
پروردگار۔۔۔
ہم شکوہ کنان ہیں ہیں ہم ہاتھ پھیلا رہیں ہم تیرے سامنے شرمندہ ہیں۔
پروردگار۔۔۔
اس قوم کو فتنوں سے بچا اور ساتھ فتنہ گروں سے بچا۔ہمیں پھر قوم بنا۔۔ان خود غرضوں، کرسی کے لئے اس قوم کو کھنگال کرنے والوں، اپنی عیاشیوں کے لئے اس ملک کو لوٹنے والوں کو تباہ و برباد کر۔یہ پاک سر زمین تیرے نام پہ حاصل کیا گیا تھا اپنے پاک نام کی لاج رکھ آقا۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں