379

غم دل ہلکا کرنے کا کوئی ذریعہ۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:شیرولی خان اسیرؔ

غم دل ہلکا کرنے کا کوئی ذریعہ ، کوئی وسیلہ باقی نہیں رہا۔ مہینے کے تیس دن، روز آٹھ دس گھنٹے اور سال کے بارہ مہینے کولہو کے بیل کی طرح کام میں جتا رہتا ہوں۔ گھر کے تین افراد کے لیے دو وقت کی روٹی کما نہیں پاتا۔ دن رات بچوں کا پیٹ پالنے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ رات کو خواب میں بھی دال روٹی کی فکر پریشان کیےرکھتی ہے” ایک ہزار روپے کے دو کلو گھی شاپنگ بیگ میں اٹھائے جمرہ بیگ کھڑے کھڑے اپنی دکھ بھری کہانی ایک ہی سانس میں کہہ ڈالی۔ اس کی رونی اور تھکی صورت اور زبان سے حقیقت کا شکوہ کرتے دیکھ سن کر مجھے بھی جمرہ بیگ اور اس جیسے کروڑوں جمرہ بیگوں کی فکر معاش کی فکر ستانے لگی۔ سوائے دل میں دکھ درد پالنے کے کر بھی کیا سکتا ہوں۔ دل ہی دل میں اللہ سے دعاء مانگنے کے سوا مجھے کوئی دوسرا راستہ نظر ہی نہیں آ رہا۔ اے رب کریم! غم دل کس سے کہوں تیرے سوا؟
“اے رب کائنات! تو ہی ہمارے بدقسمت ملک کے غریبوں کا سہارا ہے۔ تیری رحمتوں کی طفیل یہ ملک زندہ ہے۔ جمہوریت کے نام پر آپ کے بے بس بندوں پر غربت مسلط کرنے والے بھی تیری ہی بندگی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کوئی ایک کام بھی تیرے دین کے مطابق نہیں کرتے۔ انگریزوں کی ظاہری غلامی سے نجات پائے 75 سال گزرنے میں دو ڈھائی مہینے باقی ہیں مگر بباطن اب بھی ہم مغرب کے غلام ہیں بلکہ غلاموں کے غلام ہیں۔ جو لوگ ہماری رہبری کرتے رہے ہیں ان کی اکثریت امریکہ اور اہل یورپ کے غلام ہیں۔انہوں نے ہمیں غربت، بیماری، جہالت، آپس میں دشمنی، گالی گلوچ اور ایک دوسرے کی گریبان پکڑنے اور منہ نوچنے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ہمیں مسلکی، نسلی، سیاسی اور لسانی گروہوں میں بانٹ کر ہمیں ایک دوسرے سے لڑاتے بھڑاتے رہے۔ ہمارے نام پر قرض لے لے کر اپنے محل بناتے رہے۔ اپنی تجوریاں بھرتے رہے اور ملک کی دولت بیرون ملک منتقل کرتے رہے۔ ہماری اولاد کو قرضوں تلے دفن کرتے رہے۔ آج ہم معاشی، سماجی اور اخلاقی تنزل کا شکار ہیں۔ ہمیں اس مشکل سے نجات صرف تو ہی دے سکتا ہے! اپنے اردگرد بھوک افلاس کی شدت سے یہاں آپ کے کھاتے پیتے اہل دل بھی بے سکونی اور روحانی اضطراب سے دوچار ہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین اپنے اپنے اقتدار کی جنگ جدل میں مصروف ہیں۔ قیادت کی یہ جنگ غریب عوام کے خون سے رنگین ہوتی رہی ہے۔
اے ہمارے رب! ہم میں مزید سزا برداشت کرنے کی طاقت بالکل نہیں رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے اپنے کرموں کی سزا ہے جو ہمیں مل رہی ہے ورنہ نااہل اور بدعنواں قیادتیں ہم پر مسلط نہ ہوئی ہوتیں۔ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے نیک بندوں کی خاطر ہمارے اجتماعی گناہ ہمیں معاف فرما کر ہمیں اس معاشی، سیاسی اور اخلاقی بحران سے نجات دلائیں! آمین یا رب العالمین!”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں