280

مجسٹریسی نظام، بیوروکریسی کے مراعات اور وکلاء

چترال(پریس ریلیز)ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر لوئرچترال حفیظ اللہ اپنے جاری کردہ پریس ریلیزمیں کہاہے کہ پورے ملک میں وفاقی اور صوبائی-جنرل اور سپیشل لاز کے علاوہ ملاکنڈ ڈویژن میں نظام عدل ریگولیشنز کے تحت ایگزیکٹیومجسٹریٹس (ڈی سییز، اےڈی سیز، اے سیز، اےاے سیز) کو فوجداری مقدمات (جن میں سزا 3 سال قید سے کم ہو)، ضمانت، ریونیو، جنگلات، ٹرانسپورٹ، معدینیات، وائلڈ لائف، میونسیپلیٹی خدمات کی فراہمی کے علاوہ ریگولیٹری چیکنگ اور انتظامی انسپکشنز وغیرہ معاملات کو دیکھنے کے لئے بے پناہ اختیارات دئیے گئے ہیں۔ ان کثیرالجہتی معاملات کو دیکھنے کے لئے یہ مجسٹریٹس صاحبان صبح سے دوپہرتک آفس میں بیٹھ کر مقدمات سنتے ہیں، لوگوں سے ملتے ہیں، شکایات پر احکامات جاری کرتے ہیں، دوپہر کے بعد فیلڈ میں نکلتے ہیں جبکہ شام کو روزانہ سرگرمیوں کی رپورٹنگ اور دیگر دفتری امور سرانجام دیتے ہیں۔ سرکاری اداروں کی انسپکشنز، ترقیاتی کاموں کا معائنہ، ہسپتالوں کے وزٹس، میٹننگز، جرگے ان کے علاوہ ہیں۔سارے لائن ڈیپارٹمنٹس کی نگرانی اور ان کے خلاف شکایات بھی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے مجسٹریٹس سنتے ہیں۔یہ مجسٹریسی نظام کی ہی خوبصورتی ہے جس میں ایک سائل کا عام کاغذ پر خود ہی لکھا ہوا مقدمہ وکیل کی خدمات لئےبغیر مجسٹریٹ ریکارڈ کم سے کم وقت میں فیصلہ کرکے نمٹاتا ہے حالانکہ مجسٹریٹ نے متوازی اوپر ساری ذمہ داریوں کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ ان مختلف النوع ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لئے ان کو 150 لیٹر ماہانہ پی او ایل کے ساتھ گاڑی دی جاتی ہے جس کے سبب ان کا کنوینس الاونس کاٹ دیا جاتا ہے جس کے استعمال کے لئے انہیں ایک سکریچ کارڈ بھی دیا جاتا ہے جس کی مدد سے ڈیجیٹل طریقے سے لیمیٹ کے عین مطابق کٹوتی ہوتی ہے اور اس لیمٹ کو کراس ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اوپر سے اکاؤنٹنٹ جنرل اور آڈیٹرجنرل آفس کے ذریعے پری اور پوسٹ آڈٹ کا ایک موثر نظام موجود ہے۔اس کے علاوہ اگر گھر کی سہولت سرکار دے تو اس عوض ہاؤس رینٹ کاٹ کے 5 فیصد تنخواہ سے مزید کٹوتی کی جاتی ہے۔(فی الوقت 40 فیصد مجسٹریٹس کے پاس سرکاری رہائش گاہ ہے ہی نہیں)- شیڈول پوسٹ پر تعیناتی کی وجہ سے کثیرالجہتی ذمہ داریوں کی بابت اے سی صاحبان بشمول سیکریٹریٹ افسران تنخواہ پر اضافی ایگزیکٹیو الاونس بھی لیتے ہیں۔ اس الاونس کے طرز پر بہت سارے محکموں کے 17 اور بالا گریڈ کے افسران کو بھی پروفیشنل الاونس ملتا ہے۔ بنیادی تنخواہ، میڈیکل الاونس، ایڈہاک ریلیف وغیرہ سب الاونسز گریڈ کے مطابق سب ملازمین کے یکساں ہیں۔ گاڑی اور گھر کی سہولت اگر ہے تو کنوینس اور ہاؤس رینٹ الاونس کی کٹوتی کے بدلے۔۔۔ ان حالات میں کچھ لوگ مجسٹریٹس کے خلاف بے تحاشہ مراعات اور شاہانہ زندگی کی شکایت کرکے عام لوگوں کو انتظامیہ کے خلاف بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو قرین انصاف نہیں ہے۔ میری طرح ہر اے سی/اےاے سی کا دائرہ اختیار مختلف اطراف میں تقریباً 40-60 کلومیٹر رداس علاقے پر مشتمل ہوتا ہے جہاں مارکیٹس چیکنگ، کھلی کچہری، شکایات کی شنوائی، ہسپتال، آفسز و سکولز اور اے ڈی پی اسکیمز چیک کرنے اور میٹنگز وغیرہ کے لئے اکثر جانا ہوتا ہے۔ صوبائی حکومت کی پالیسی کے مطابق ان سارے معاملات کو دیکھنے کے لئے مجسٹریٹس سمیت سب محکموں کے افسران کو گاڑی کی سہولت دی گئی ہے۔ اگر حکومت آج ہی گاڑی اور تیل کی سہولت واپس لے اور کہیں کہ مارکیٹ سے ٹیکسی کرایہ پر لیاکریں تو ہم تیار ہیں۔ لیکن حکومت ایسا اسلئے نہیں کریگی کہ مارکیٹ ریٹ پر ٹیکسی رینٹ پر لینے میں حکومت کے اخراجات زیادہ آئیں گی۔
پشاور میں ایک اے اے سی کی دوران انسپکشن کار سرکار میں مداخلت کے بعد قانونی کاروائی کے بعد ردعمل میں قانونی راستہ اپنانے کی بجائے ڈی سی آفس پر کچھ وکلاء کی جانب سے حملہ اور تھوڑ پھوڑ کے بعد سرکاری ملازمین اور وکلاء دونوں کی جانب سے احتجاج کا آغاز کیا گیا ہے۔ موجودہ اطلاعات کے مطابق بیوروکریسی کی جانب سے صرف آج ایک دن اپنے آفسز حدود کے اندر پرامن علامتی ہڑتال کا انعقاد کیا جارہا ہے جسمیں ریاستی اداروں اور سرکاری اہلکاروں کے آزادانہ ڈیوٹی کی ضمانت و تحفظ کا مطالبہ کیاگیا ہے جبکہ دوسری جانب متاثرہ وکیل پیچ آپ کے لئے تیار ہونے کے باوجود کچھ لوگ خوامخوہ معاملات بدمزگی کی طرف لے جانا چاہ رہے ہیں اور وکلاء نے اے اے سی کی گرفتاری تک احتجاج کی دھمکی دی ہے۔ چترال میں معزز بار کونسل کی جانب سے مجسٹریسی نظام ختم ہونے تک مجسٹریٹس کی عدالتوں سے بائیکاٹ کی بازگشت ہے۔ ان حالات میں میری ذاتی رائے ہے کہ تحقیقات کو مکمل ہونے دیں سی سی ٹی ویز کو ملاحظہ کریں۔وہاں پر موجود لوگوں سے پوچھ گچھ کریں اور ان سارے معاملات میں عوام / عام آدمی کو دو بڑوں کی جنگ میں کم سے کم تکلیف دیں۔ اللہ ہماری حال پر رحم فرمائیں۔آمین!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں