523

 آو سورج کو چراغ دیکھاتے ہیں …………محمد جاوید حیات

آو سوچتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ہر کام آسان ہے اور ہر کام ہر ایک کے کرنے کا ہے۔یہ مرتبے،یہ صلاحیتیں ،یہ خصوصی انعامات ،یہ کمالات،یہ خدشات،یہ محنت و شاقہ، یہ خو اب اوران کی تعبیر یں، یہ آگے بڑھنے کا عز م یہ سب الفاظ کے ملغوبے ہیں۔عملی طور پر ان میں کوئی حقیقت نہیں ۔آو فرض کرتے ہیں کہ ابو ایک مرد کا نام ہے ایک فرد کا نام ہے۔اس کے جائز ناجائزحکم کا ماننا کون کہتا ہے کہ ضروری ہے۔ماں ایک عورت ہے ہر عورت کا فرض بچہ پالنا ہے۔اس کی اتنی تابعداری کی ضرورت ہی کیا ہے؟سکول میں جو استاد ہے یہ پڑھا کے معاوضہ لیتا ہے۔اس کی تابعداری اور احترام کرنا کیا خوامخواہ ضروری ہے؟۔۔۔جہاز اڑانا کونسا مشکل کام ہے۔ کاکپٹ پہ مجھے بیٹھا یا جائے سامنے بٹن ہیں اوپر لکھاہوا ہے بس بٹن دبا نے کی دیر ہے جہاز اوڑے گاانگلی کا اشارہ ہے جہاز اترے گا۔۔لوگ کہتے ہیں خلا میں جانا مشکل کام ہے۔لو اتنی سہولیات ہیں خلائی لباس ہیں ،خوراک ، اکسیجن سلنڈرہیں ۔آرام سے سیشٹل میں بیٹھو خلا میں پہنچ جاؤ۔۔۔آو سیاست کے میدان میں ہیرو بنتے ہیں۔بس الیکشن لڑتے ہیں ووٹ لیتے ہیں جیتے ہیں۔حکمرانی کرتے ہیں ۔۔۔آوٹھیکیدار بنتے ہیں ۔بڑے بڑے ٹھیکے لیتے ہیں ۔پیسے کماتے ہیں جائیدادیں بناتے ہیں ۔۔آو یا کم از کم کرکٹ کھیلتے ہیں ۔سٹہ بازی کرتے ہیں ۔دولت کماتے ہیں ۔۔۔امریکہ کی کیا حیثیت ہے آو اس کو چلنچ کرتے ہیں ۔کہ وہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم سے کس طرح آگے نکل سکتا ہے۔۔آو صنعت میں جاپان کا مقابلہ کرتے ہیں ۔بس صنعت کار بنتے ہیں ۔آو آو ۔۔۔سورج کو چراغ دیکھا تے ہیں ۔۔دوستو سورج کو چراغ دیکھانا ہمارا کلچر بن گیا ہے۔یہ سب باتیں سچ ہیں ۔ہمارے نوجوان کرتے ہیں ۔ہم یہ باتیں کرتے ہیں ۔جن کے پاس اخلاق کی کمزوری اور صلاحیتوں کی فقدان ہے وہ یہ باتیں کرتے ہیں ۔۔جن کو ماں باپ کی پرواہ نہیں بڑوں بزرگوں کی پرواہ نہیں وہ یہ باتیں کرتے ہیں ۔جس کو معاشرے میں اپنے فرائض اور مقام کا ادراک نہیں وہ یہ بولتا ہے۔۔ہاں بولتا ہے۔۔لوگوں نے الہڑ جوانوں کو یہ کہتے سنا ہے۔۔کہ جنگل میں پودوں کی پرورش کون کرتا ہے۔کیا تم کرتی ہو ۔۔۔یہ ماں کو بیٹے کا ٹکا سا جواب ہے۔۔ہم نے لوگوں کو دھوپ میں بیٹھ کر سیاست دانوں پر تنقید کرتے سنا ہے۔ خود دن کی اپنی دیہاڑی نہیں کرتے ملک کے وزیر اعظم پر تبصیرہ کرتے ہیں ۔ہم نے ساری ساری رات پڑھنے کی بجائے کرکٹ کمنٹری سنے والے نوجوانوں کو یہ کہتے سنا ہے۔،،کہ ان کو اگر قومی ٹیم میں لیا جائے تو کمال دیکھائیں گے۔۔،،ہم نے سنا ہے کہ خود بندہ میٹرک پاس نہیں ہے۔سی ایس ایس آفیسر کو سمجھانے بجھانے میں لگا ہوا ہے۔۔ہم نے دیکھا ہے کہ بندے کے ہاتھ میں پائی نہیں ٹھیکیدار بن کر گھر بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔۔ہم سٹیچ اور ممبر پہ لوگوں کو امریکہ اور یورپ کو گالیاں دیتے سنا ہے۔خود کبھی اس مقام کو حاصل کرنے کا سوچا کسی نے نہیں ۔قرآن نے کہا ۔۔وہ بات کیون کرتے ہو جس پر تم عمل نہیں کرتے ہو۔۔سوال ہے ۔۔ہم سورج کو چراغ دیکھانے کی عادی کیوں ہوگئے ہیں ۔ہم ۔،،حال ،،اور ،،قال،، میں فرق کیوں نہیں کر سکتے ہیں ۔ہم نے ،،قال،، کو ،،حال،، سمجھ بیٹھا ہے۔اس لئے ،، سورج،، کے مقا بلے میں ہمارے ہاتھ میں ہمیشہ ،،چراغ ،، ہوتا ہے۔۔جاپان کو تباہ کیا گیا اس کے پاس ،،سورج،، کو دیکھانے کیلئے صرف ،،چراغ،، تھا۔مگر انھوں نے چراغ پر اکتفا نہیں کیا ۔وہ چراغ سورج بنانے میں مگن رہے۔اور ایک وہ دن بھی آیا کہ جاپان کے وزیر اعظم سے پوچھا گیا۔۔،،کہ امریکہ تمھارا بڑا دشمن ہے۔تم نے کھبی اس کے خلاف،،نعرہ نفرت،،بلند نہیں کیا ؟۔۔اس نے عجیب جواب دیا ۔۔ ،،ہم نے اسے شکست دی ہے ۔ثبوت یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس میں صدر کی میز پہ رکھی ہوئی ٹیلی فون سیٹ ہم نے بنائی ہے۔،،۔۔یہی چراغ کو سورج بنانے کا عمل ہے ۔جو کبھی مسلم امہ نے کیا تھا۔دنیا میں سورج بن کر ابھرا تھا آج پھر چراغ خانہ ہے۔اور حقیقتوں کو ماننے سے انکاری ہے۔ماں ۔۔سورج،، ہے اس کی خدمت میں مقام ہے ۔ملک کا وزیر اعظم سورج ہے ہم اس کی رعایا ہیں ۔پائیلٹ کتنی سخت محنت کے بعدجہاز اڑانے کے قابل ہوجاتا ہے ۔ہم بیٹھے بیٹھے دعویٰ کرتے ہیں امریکن ٹیکنالوجی کے پیچھے ان جفا کشوں کا ہاتھ ہے جنھیں سائنسدان کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔مختصر یہ کہ سورج کو چراغ دیکھانے سے کیا ہوتا ہے اپنی محرومیوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے ۔۔کیا خیال ہے کیا اب بھی سورج کو چراغ دیکھائیں گے؟؟ْْ؟؟؟۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں