235

چلو کھیلتے ہیں۔۔۔۔ پروفیسررفعت مظہر

دینِ مبیں میں خدمتِ خلق پر بہت زور دیا گیا ہے۔سورۃ البقرہ آیت 177 میں اللہ تعالیٰ نے اپنا دِل پسند مال یتیموں، مسکینوں، مسافروں، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہی خدمتِ خلق ہے جس کا سب سے زیادہ بوجھ رَہنمائی کے دعویداروں کے کندھوں پر ہوتا ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے ”تم میں سے ہر ایک راعی ہے جس سے قیامت کے روز اُس کی بھیڑوں کا حساب ضرور لیا جائے گا“۔ گویا روزِ قیامت خاندان کے سربراہ سے ملکی سربراہ تک ہر کسی کو حساب دینا ہوگا۔ارضِ وطن کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں آپ کو کوئی رَہنماء بھی رَبِ لَم یزل کے مقرر کردہ معیار پر پورا اُترتا نظر نہیں آئے گا۔ ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے داعی عمران خاں اِس دَوڑ میں سب سے آگے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک سیاست محض کھیل تماشا ہے۔ اُنہیں تو کرسیئ اقتدار تک پہنچنا ہے خواہ اِس کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنا پڑے۔ یہ الگ بات کہ اُن کے رویے کی وجہ سے دن بدن ”کُرسی“ اُن سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
اکتوبر 2011ء کے مینارِ پاکستان لاہور کے جلسے سے لے کر 27 مارچ 2022ء کے پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد کے جلسے میں کاغذ لہرانے تک اُن کا مطلوب ومقصود ملک رہا نہ قوم مگراقتدار، محض اقتدار۔ 2014ء کے ڈی چوک اسلام آباد کے دھرنے میں اُنہوں نے ملکی معیشت تباہ کرنے کی کوشش کی۔ اُس دھرنے کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا اور سی پیک معاہدہ ایک سال مؤخر ہوگیا۔ جب وہ برسرِ اقتدار آئے تو سی پیک پر کام بند کروا دیا۔ عمران خاں کے دَورِحکومت میں 20 ارب ڈالر قرضہ محض 3 سالوں میں لیا گیا جبکہ سابقہ حکومتوں نے کُل 25 ارب ڈالر قرضہ لیا۔ وہ قرضہ کدھر گیا، کچھ پتہ نہیں کیونکہ اُن کے دورِحکومت میں تو ترقیاتی کاموں کی ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ جو منصوبے نوازلیگ کے دَور میں پایہئ تکمیل تک پہنچنے والے تھے، اُن پر اپنے نام کی تختیاں لگا کر اُن کا کریڈٹ لینے کی کوشش ضرور کی۔
جب عمران خاں کو یقین ہو گیا کہ ملک ڈیفالٹ کے قریب ہے اور اُن کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرکے آنے والی حکومت کی راہ میں بارودی سُرنگیں بچھا گئے۔ پھر جب خالصتاََ آئینی طریقے سے اُن کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو امریکی سائفر کا ڈرامہ رچا کر سڑکوں پہ نکل آئے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے بار بار کہا کہ اِس سائفر کو کسی بھی صورت میں امریکی سازش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ اِس سائفر میں کہیں امریکی سازش نظر نہیں آتی لیکن عمران خاں نے تو اِس سے کھیلنا تھا۔ اُن کی ایک آڈیو بھی لیک ہوئی جس میں اُنہوں نے اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خاں سے کہا ”اِس سے کھیلتے ہیں“۔ بعد ازاں اُنہوں نے اِس معاملے میں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو اعتماد میں لے کر کھیلنا شروع کر دیا اور یہ کھیل آج تک جاری ہے۔ اکتوبر 2022ء تک تو وہ امریکی سائفر کا ڈرامہ رچا کر کھیلتے رہے لیکن نومبر 22 میں کہہ دیا ”امریکی سازش کا بیانیہ میرے لیے ختم ہو چکا۔ میں نے اِسے ترک کردیا۔ اِس کے لیے امریکہ کو موردِالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا“۔ فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ امریکہ پر دوبارہ الزام نہیں لگائیں گے اور امریکہ سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ یہ وہی فنانشل ٹائمز ہے جس نے عمران خاں پر چوریوں کا الزام لگایا۔ تب تحریکِ انصاف کی طرف سے متواتر کہا جاتا رہا کہ فنانشل ٹائمز کے خلاف عمران خاں عدالت میں جائیں گے لیکن وہ دن آج تک نہیں آسکا۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل نے اُن پر گھڑی چوری کا الزام لگایا لیکن اُنہوں نے اِس کے خلاف بھی ہتک عزت کا دعویٰ نہیں کیا۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ برطانیہ میں ہتک عزت کے قوانین بہت سخت ہیں اِس لیے اُنہوں نے اِس اخبار کے خلاف اُس ملک میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کی حماقت نہیں کی جسے وہ ”سب سے زیادہ جانتے ہیں“۔
چودھری پرویز الٰہی کو عمران خاں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتے تھے لیکن پھر اُسی ”ڈاکو“ کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنا دیا۔ چودھری پرویز الٰہی بھی بہت کائیاں ہیں۔ جب اُنہوں نے دیکھا کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خاں کی حمایت سے دست بردار ہو چکی ہے تو اُنہوں نے ایک ٹی وی اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ساڑھے تین سال تک عمران خاں کو گود میں بٹھا کر اُس کی ”نیپیاں“ بدلتی رہی ہے۔ چونکہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خاں کو نیچے اُترنے ہی نہیں دیااِس لیے وہ سیاست کے اسرارورموز کی الف بے سے بھی واقف نہیں۔جب اپوزیشن اتحاد نے پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پیش کی تب چودھری صاحب کو ”کہیں“ سے فون آیا کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خاں کے ساتھ ہے اِس لیے وہ خاں صاحب سے مل لیں۔ چودھری صاحب بھاگم بھاگ بنی گالہ جا کر عمران خاں کے قدموں میں بیٹھ گئے۔ آج وہ پنجاب کے وزیرِاعلیٰ تو ضرور ہیں لیکن اُنہیں ”عدالتی وزیرِاعلیٰ“ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سپریم کورٹ کے انتہائی متنازع فیصلے کی بدولت وزیرِاعلیٰ بنے۔تازہ ترین صورتِ حال یہ کہ نہ عمران خاں وزیرِاعلیٰ پنجاب پراعتماد کرتے ہیں اور نہ وزیرِاعلیٰ عمران خاں پر۔
اسٹیبلشمنٹ کی گود کے پالے عمران خاں نے حکومت چھِن جانے کے بعد اُسی کو ہی موردِالزام ٹھہرانا شروع کر دیا۔ اُنہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو میر جعفر تک کہہ دیا۔ جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج ”نیوٹرل“ ہو چکی تو عمران خاں اپنے ہر خطاب میں بار بار کہتے رہے کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ دراصل خاں صاحب اگلے دَس سالوں تک اقتدار سے چمٹے رہنے کا منصوبہ بنا چکے تھے جس کے لیے وہ اپنی مرضی کا چیف آف آرمی سٹاف منتخب کرنا چاہتے تھے لیکن فوج کے پیچھے ہٹ جانے سے اُن کے سارے خواب چکناچور ہو گئے۔ اِسی لیے وہ یہ کہہ کر اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرتے رہے کہ امریکہ نے اُن کی حکومت گرانے کے لیے سازش کی اور فوج بھی اِس سازش میں برابر کی شریک ہے۔ حقیقت مگر اِس کے برعکس کہ یہ اسٹیبلشمنٹ ہی تھی جس کے دباؤ پر ایم کیو ایم، آزاد ارکانِ اسمبلی، بی اے پی اور دیگر چھوٹی جماعتوں نے عمران خاں کا ساتھ دیا اور یوں وہ وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ جب اسٹیبلشمنٹ نے عمران خاں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا تب یہ سارے اتحادی آزاد ہو گئے۔جب اتحادیوں کو یقین ہو گیا کہ اسٹیبلشمنٹ واقعی نیوٹرل ہو چکی تو وہ مَن مرضی کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں آگئے۔ اُن کے سامنے عمران خاں کا ساڑھے تین سالہ بدترین دَورِحکومت تھا اور صورتِ حال یہ تھی کہ وہ اپنے حلقوں میں جانے کے قابل بھی نہیں رہے تھے۔ اِسی لیے اُنہوں نے پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کے اتحاد کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یوں آئینی طریقے سے عمران خاں کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کی تبدیلی میں سازش کہاں سے آگئی؟۔ کیا تحریکِ عدم اعتماد غیرآئینی ہے؟۔ کیا دنیا میں عدم اعتماد سے حکومتوں کا خاتمہ ہوتا نہیں رہا؟۔لیکن عمران خاں نے چونکہ کھیلنا تھا اِس لیے اُنہوں نے تحریکِ عدم اعتماد میں بھی سازش تلاش کر لی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ عمران خاں کا ہر وار خالی جانے کے بعد وہ چاروں شانے چِت ہوچکے۔ اُن کی خواہش تو یہ تھی کہ چیف آف آرمی سٹاف اُن کی مرضی کا منتخب ہو جائے لیکن اُن کا یہ آخری وار بھی خالی گیا۔ چیف آف آرمی سٹاف کا قرعہ اُس شخص کے نام نکلا جسے وہ کسی بھی قیمت پر اِس عہدے پر دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس کے پاس کوئی اختیار نہیں وہ اپنی مرضی کا چیف آف آرمی سٹاف لگوانا چاہتا ہو جبکہ آئینی طور پر یہ اختیار صرف وزیرِاعظم کو حاصل ہے۔ عمران خاں نے تو کہہ دیا تھا کہ وہ اِس پر بھی کھیلیں گے لیکن جب وزیرِاعظم نے جنرل سیّد عاصم منیر کو چیف آف آرمی سٹاف اور جنرل ساحر شمشاد کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر کر دیااور صدر عارف علوی نے بھی اِس کی منظوری دے دی تو عمران خاں کا یہ کھیل بھی انجام کو پہنچا۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ کون سا نیا ”ڈرامہ“ رچا کر اپنے پیروکاروں کو بیوقوف بناتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں