167

داد بیداد …وطن کا سرما یہ…ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ایک خبر نظر سے گذری کہ گذشتہ سال با ہر سے گاڑی منگوانے کی شرح میں بہت کمی آئی خبر کی تفصیل میں بتا یا گیا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضا فہ، پا کستان کے اندر معا شی کساد بازاری اور دیگر وجو ہا ت آڑے آگئیں قیمتی گاڑیوں کی در آمد میں نما یا ں کمی دیکھنے میں آئی اگر چہ خبر کے اندر اس کے منفی پہلووں پر زور دیا گیا تا ہم نجی محفلوں میں، اخبار نویسوں کی گفتگو اور وکلا کی مجا لس میں اس رجحا ن کو پسند ید گی کی نظر سے دیکھا جا تا ہے گاڑیوں کی در آمد میں اضا فہ ملکی معیشت کے لئے کوئی اچھی بات نہیں یہ ان ملکوں کے لئے اچھی بات ہے جنہوں نے ہم کو اپنا گا ہک یا کنزیو مر بنا یا ہوا ہے وہ ما ل بیجتے ہیں ہم خون پسینے کی کما ئی دیکر بلا ضرورت خرید تے ہیں اس کاروبار میں وہ ہم پر قرض چڑھا تے ہیں اور ہم مقروض بنتے جا تے ہیں جو اپنا مال بیجتے ہیں وہ ہر سال ما رکیٹ کا سر وے کر تے ہیں اگر کسی سال ان کا مال فروخت نہ ہو یا فروخت میں کمی دیکھنے میں آئے تو متعلقہ ملک میں گاہکوں کا سروے کر تے ہیں اور وجو ہات معلوم کر تے ہیں یہ جا پا ن کی سچی کہا نی ہے ایک سال جا پا نی کا رخا نوں کے ما لکان نے محسوس کیا کہ پا کستان میں ان کی گاڑیوں، مو ٹر سائیکلو ں، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر اور ٹیلی وژن سیٹوں کی کھپت میں نما یاں کمی آگئی ہے 10سال پہلے کے مقا بلے میں ڈیمانڈ بڑھنے کی جگہ کم ہو گئی ہے اس کا پتہ لگا یا جا ئے کہ پا کستانی ہمارے مقا بلے میں کس ملک کی مصنو عات کو تر جیح دیتے ہیں اور کیوں تر جیح دیتے ہیں ما ہرین کی ٹیموں کو پا کستان بھیجا گیا ان لو گوں نے شہر شہر اور گاوں گاوں جا کر سروے کیا انہوں نے جورپورٹ بھیجی وہ ہمارے لئے باعث فخر بھی ہے با عث مسرت بھی، رپورٹ میں کہا گیا کہ پا کستان کے گلی کو چوں میں ان پڑھ اور نیم خواندہ کا ریگر چھوٹے چھوٹے ورکشاپ کھول کر کا م کر تے ہیں یہ لو گ ہماری مصنو عات پر کڑی نظر رکھتے ہیں جب کوئی خراب چیزان کے پا س لا ئی جا تی ہے اس کی ایسی مر مت کر تے ہیں کہ نئے اور پرا نے میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے ان کاریگروں کے شاگرد ہیں جو بازار میں چھو ٹو کہلا تے ہیں 10سال یا 12سال عمر کے یہ لڑ کے با لے ٹو یو ٹا مو ٹر کو ہمارے کا رخا نے کے انجینئروں سے بہتر جا نتے ہیں دو نمبر پر زہ ان کے ہا تھوں میں آکر جینوین سے بہتر کا م دیتا ہے ٹی وی ہو، ریڈیو ہو یا ٹیپ ریکارڈر یہ نا خواندہ کا ریگر اس کو ہمارے انجینئروں سے بہتر دیکھتے ہیں ان کے ہا تھوں میں کوئی جا دو ہے جس کی مدد سے وہ ہر فنی خرا بی کو دور کر تے ہیں کل پر زے بھی بدلتے ہیں، ریڈیو، ٹیب ریکارڈر اور ٹی وی کے کا رخا نوں نے اس کا یہ حل نکا لا کہ فوری طور پر ایک سکیم لا کر پرانا ما ڈل بدل کر نیا دے دیا، پا کستان بھر میں اشتہا رات لگ گئے کہ پرانا ریڈیو، ٹی وی یا ٹیپ ریکارڈر ہو تو اس کے بدلے نیا لے لو، پر انے کو تبدیل کر کے جو نیا مال لا یا گیا وہ کمپیو ٹر ائز ڈ تھا چند سالوں کے لئے پا کستانی کا ریگر کے لئے اس کی مر مت مشکل تھی ایسی گھڑ یاں لائی گئیں جن کی مر مت ہو تی ہی نہیں اس رپورٹ کی روشنی میں جا پا نی کا رخا نوں نے ہمارے نیم خواندہ یا خواندہ کا ریگر کو شکست دینے کے لئے کمپیو ٹر ائزڈ گاڑیوں کی تیا ری شروع کی، آٹو میٹک گاڑیوں کی تیاری شروع کی، آٹو میٹک گاڑیاں ما رکیٹ میں لا ئی گئیں مگر ہمارا کار یگر آج بھی پسپا نہیں ہوا ہمارے شہروں اور قصبوں میں آپ دیکھتے ہیں یہ کاریگر سڑک کے کنارے کسی درخت کے نیچے دو پھٹے پرا نے ٹائیر لٹکا ئے بیٹھا ہے چینیوں اور جا پا نیوں کی طبیعت درست کرنے پر لگا ہوا ہے یہ کا ریگر ہمارے وطن کا اصل سرمایہ ہے اس سرما یے کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اور سرما یے کی ضرورت نہیں اس کو کارخانہ بنا کر دیدیں تو یہ کاریگر ہر چیز بنا کر دے دے گا یہ سائیکل اور مو ٹر گاڑی سے لیکر جی تھری، ایل ایم جی، راکٹ سسٹم اور ٹینک بھی بنا کر دیدے گا ہمارے کاریگر ہمارا قیمتی اثا ثہ ہیں کمپیوٹر ائزڈ مشینوں کے دور میں بھی انہوں نے جا پا ن کے انجینئر وں کی نیدیں اڑا نے کا شغل جا ری رکھا ہوا ہے جب تک ہمار ا مستری زندہ ہے در آمدات میں اضا فہ نہیں ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں