215

عوام کی قربانی۔۔۔۔تحریر: رانااعجاز حسین چوہان

جو حکمران دور اندیش اور عوامی مزاج کو سمجھتے ہیں وہ سب سے پہلے عوام کو درپیش مسائل حل کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ خاص طور پر ان کے لیے ضروریات زندگی کی فراہمی کو آسان بناتے ہیں۔ وہ کسی صورت بھی اشیائے خورد و نوش کی قلت اور گرانی کو برداشت نہیں کرتے اور طلب و رسد کا ایسا مضبوط نظام قائم کرتے ہیں کہ عوام کو کوئی دشواری نہ ہو۔ بس یہی چیز حکومت کا پلہ بھاری کردیتی ہے اور اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور وقت سے پہلے رخصت کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں لیکن پاکستان میں ہوا یہ کہ حکمرانوں کی طرف سے پے در پے مہنگائی کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں، اگر ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے قیمتوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو خدا نخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے گا۔ حکمرانوں کی سوچ اپنی حد تک درست مگر پے درپے مہنگائی اور اشیائے خوردو نوش میں گرانی کے طوفان سے غریب کا چولہا بجھ گیا ہے۔ محنت مزدوری کرنے والے طبقہ کے لیے دووقت کی روٹی کمانا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا، نفع اور مزدوری کی اجرت وہی مگر اخراجات میں مہنگائی کی وجہ سے کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ ملک میں معاشی حالات اسقدر سنگین ہیں کہ ہر مکتبہ فکر کے افراد پریشان ہیں اور کہتے نظر آتے ہیں کہ ایسی مایوسی ہم نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھی، اقتصادی طور پر پاکستان کو خطرناک و پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے، قومی کرنسی ڈالر کے سامنے ایسے عجز کا شکار کبھی نہیں رہی۔
پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے، ہماری زرخیز اراضی پہلے پورے جنوبی ایشیا کے لئے غلہ پیدا کرتی تھی اب ہم اپنے لئے کیوں نہیں کرسکتے۔ہماری پاس سونا اگلنے والی دھرتی ہونے کے باوجود ہم گندم، پیاز، ٹماٹر، سبزیاں اوراناج دوسرے ملکوں سے منگوارہے ہیں۔ ہمارے قدرتی وسائل بے پایاں ہیں مگر بد ترین حکمرانی کی تاریخ نے ہمارے سر شرم سے سر جھکادیے ہیں۔ ملکی غیر ملکی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ یہ بگڑے ہوئے حالات ایک سے ڈیڑھ سال مزید جاری رہ سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت ابتک ایسی پالیسیاں وضع نہیں کرسکی جن سے ڈالر کی پرواز رک سکے، اور ضروری اشیا کی قیمتیں قابو میں آسکے۔ بعض اوقات تو سنجیدہ حلقے یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اقتصادی، سیاسی، سماجی بحران کو ختم کرنا اس مخلوط حکومت کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں ہے بلکہ یہ بحران اسے راس آرہا ہے اور وہ اس سے ٹھیک ٹھیک فائدے اٹھارہی ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا بوجھ غریب عوام پر براہ راست منتقل کرنا سراسر ظلم ہے۔ آج ہمارے حکمراں تو آسان راستہ یہی خیال کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف جتنا بوجھ دیتی ہے وہ براہ راست غریب عوام پر ڈال دیں۔ آئی ایم ایف نے بجا طور پر بیورو کریسی کے اثاثے ظاہر کرنے پر زور دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو بدترین معاشی حالات سے نکالنے اور بہتری کی طرف لانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے متفقہ طور پر ایک متفقہ لائحہ عمل طے کیا جائے، جس کے نتیجے میں ایک غیرجانبدار، محب وطن معاشی اور قانونی ماہرین پر مشتمل نگران انتظامی ڈھانچہ تشکیل پائے، اور اس قابل قبول نگران حکومت کی مدت محدود ہو اور اس کی تشکیل کے وقت ہی اگلے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی کر دیا جائے جو بالکل شفاف اورمنصفانہ ہوں ا س سے ہم بحرانوں سے نکل سکیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں